وضو کو واجب کرنے والی چیزوں کا بیان
راوی:
وَعَنْ بُرَےْدَۃَ ص اَنَّ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم صَلَّی الصَّلَوَاتِ ےَوْمَ الْفَتْحِ بِوُضُوْءٍ وَّاحِدٍ وَّمَسَحَ عَلٰی خُفَّےْہِ فَقَالَ لَہُ عُمَرُ ص لَقَدْ صَنَعْتَ الْےَوْمَ شَےْئًا لَّمْ تَکُنْ تَصْنَعُہُ فَقَالَ عَمْدًا صَنَعْتُہُ ےَا عُمَرُ ص۔(مسلم )
" اور حضرت بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ( اسم گرامی بریدہ بن حصیب ہے ان کی کنیت جو مشہور ہے وہ ابوعبداللہ ہے، یہ مدینہ کے باشندہ تھے مقام مرد میں یزید بن معاویہ ٦٣ھ میں انتقال فرمایا۔) فرماتے ہیں کہ " فتح مکہ کے دن سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک وضو سے کئی نمازیں پڑھیں (یعنی ایک ہی وضو سے پانچوں نمازیں پڑھیں) اور موزوں پر مسح کیا (یہ دیکھ کر ) حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ " آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم) نے آج وہ چیز کی ہے جس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی نہیں کیا " آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " عمر فاروق (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) ! میں نے ایسا قصداً کیا ہے۔" (صحیح مسلم)
تشریح :
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ پہلے تو آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم) کا معمول یہ تھا کہ ہر نماز لئے تازہ وضو کرتے تھے، مگر آج آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم) نے خلاف معمول ایک وقت وضو کر لیا پھر اسی وضو سے آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم) نے پانچوں نمازیں ادا فرمائیں اور پھر ایک نئی چیز کی کہ موزوں پر مسح بھی فرمایا حالانکہ آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم) ایسا کبھی نہیں کرتے تھے۔
اس کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ میرا عمل کسی دوسری وجہ سے نہیں بلکہ میں نے قصدًا کیا ہے تاکہ لوگوں کو یہ معلوم ہو جائے کہ یہ دونوں صورتیں بھی جائز ہیں اور دوسرے بھی ایسا کرسکتے ہیں۔