وضو کو واجب کرنے والی چیزوں کا بیان
راوی:
وَعَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عَبَّاسٍ ص قَالَ اِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم شَرِبَ لَبَنًا فَمَضْمَضَ وَقَالَ اِنَّ لَہُ دَسَمًا۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
" اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما راوی ہیں کہ (ایک مرتبہ) سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے دودھ پیا (اس کے بعد ) کلی کی اور فرمایا دودھ میں چکناہٹ ہوتی ہے۔" (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
تشریح :
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ چکنی چیز کھانے کی بعد کلی کرنا مستحب ہے، اس لئے کہ اگر کلی نہ کی جائے تو ہو سکتا ہے کہ جو چیز کھائی گئی چکناہٹ کی وجہ سے اس کا کچھ حصہ منہ میں لگا رہ جائے، جب نماز پڑھی جائے تو حالت نماز میں پیٹ میں پہنچ جائے اس پر ہر اس چیز کو قیاس کیا جاتا ہے جو منہ میں لگی ہو اور حالت نماز میں اس کے پیٹ میں پہنچ جانے کا خوف ہو تو اس سے بھی کلی کرنا مستحب ہے۔
اس حدیث سے علماء کرام نے مسئلہ بھی مستنبط کیا ہے کہ کھانا کھانے سے پہلے صفائی اور ستھرائی کے لئے ہاتھوں کو دھولینا چاہئے، ہاں اگر ہاتھ پہلے سے صاف ستھرے ہیں اور نجاست و میل نہیں لگی ہے تو پھر ہاتھوں کا دھونا ضروری نہیں ہے، اسی طرح کھانا کھانے کے بعد بھی ہاتھوں کو دھونا چاہئے اگر کھانا خشک ہونے کی وجہ سے یا چمچہ وغیرہ سے کھانے کی وجہ سے ہاتھ میں کچھ نہ لگے تو پھر ہاتھوں کا دھونا ضروری نہیں ہے۔
آخر میں یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ بظاہر تو اس باب سے اس حدیث کی کچھ ماسبت نظر نہیں آتی ہے اس لئے یہ اعتراض پیدا ہو سکتا ہے کہ مصنف مشکوٰۃ نے اس حدیث کو اس باب میں کیوں ذکر کیا؟ اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ اس حدیث میں کلی کا ذکر کیا گیا ہے وہ متعلقات وضو سے ہے اس لئے اس حدیث کو اس باب میں ذکر کیا گیا ہے۔