مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ پاکی کا بیان ۔ حدیث 284

پاکیزگی کا بیان

راوی:

وَعَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ اَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم اَتَی الْمَقْبَرَۃَ فَقَالَ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ دَارَ قَوْمِ مُؤْمِنِیْنَ وَاِنْشَآءَ اﷲُ بِکُمْ لَا حِقُوْنَ وَدِدْتُّ اَنَّا قَدْرَ اَیْنَّا اِخْوَانَنَا قَالُوْا اَوَلَسْنَا اِخْوَانَکَ یَا رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ اَنْتُمْ اَصْحَابِیْ وَإِخْوَانْنَا الَّذِیْنَ لَمْ یَأْتُوْا بَعْدُ فَقَالُوْا کَیْفَ تَعْرِفُ مَنْ لَمْ یَأْتِ بَعْدُ مِنْ اُمَّتِکَ یَا رَسُوْلَ اﷲِ فَقَالَ اَرَ ءَ یْتَ اَنَّ رَجُلًا لَہ، خَیْلٌ غُرٌّ مُّحَجَّلَۃٌ بَیْنَ ظَھْرَیْ خَیْلِ دُھْمِ بُھْمِ اَلَا یَعْرِفُ خَیْلَہ، قَالُوْا بَلٰی یَا رَسُوْلَ اﷲِ قَالَ فَاِنَّھُمْ یَاتُوْنَ غَرًّا مُّحَجَّلَیْنِ مِنَ الْوُضُوْءِ وَاَنَا فَرَطُھُمْ عَلَی الْحَوْضِ۔ (رواہ صحیح مسلم)

" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ (ایک مرتبہ) سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم مقبرہ (یعنی جنت البقیع) میں (دعاء مغفرت کے لئے ) تشریف لائے، چنانچہ (وہاں پہنچ) کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔" اے مومنین کی جماعت! تم پر سلامتی ہو (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل قبور کو سلام کیا اور فرمایا) ہم بھی انشاء اللہ تم سے ملنے والے ہیں اور میں اس بات کی تمنا رکھتا ہوں کہ ہم اپنے بھائیوں کو یکھیں۔" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میرے دوست ہو اور میرے بھائی وہ ہیں جو ابھی (دنیا میں) نہیں آئے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے عرض کیا " یا رسول اللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں سے جو لوگ ابھی نہیں آئے انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم (قیامت میں کس طرح پہچانیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے یہ بتاؤ کہ اگر کسی آدمی کے پاس سفید پیشانی اور سفید ہاتھ اور پیر والے گھوڑے ہوں اور وہ نہایت سیاہ گھوڑوں میں ملے ہوئے ہوں تو کیا وہ اپنے گھوڑے کو پہچان لے گا ؟ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے عرض کیا ہاں (یا رسول اللہ ! ان امتیازی اوصاف کی بنا پر تو وہ یقینًا پہچان لے گا) آپ نے فرمایا " (وہ قیامت میں) وضو کے اثر سے سفید پیشانی اور سفید ہاتھ پاؤں کے ساتھ آئیں گے (لہٰذا اس علامت سے میں انہیں پہچان لوں گا) اور میں حوض کوثر پر ان کا میر سامان ہوں گا۔" (صحیح مسلم)

تشریح :
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اور ان کے بعد ہونے والے مسلمانوں میں نہ صرف یہ کہ بڑا دلچسپ اور لطیف فرق بیان فرمایا ہے بلکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کو امتیازی شان بھی بخش دی ہے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم سے فرمایا کہ تم میرے دوست ہو اور بعد میں پیدا ہونے والے مومنین میرے بھائی ہیں، یعنی تمہارے ساتھ تعلقات کی دو نوعیتیں ہیں ایک تو یہ کہ تم میرے بھائی ہو اور اس کے ساتھ ساتھ رفیق خاص بھی اور جو بعد میں آنے والے ہیں یعنی تابعین وغیرہ ان کے ساتھ ایک ہی تعلق ہے کہ وہ صرف میرے اسلامی بھائی ہیں۔
" میر سامان" کا مطلب یہ ہے کہ میں ان لوگوں سے پہلے ہی اللہ کے یہاں جا کر ان کی مغفرت و بخشش اور بلندی اور درجات کے اسباب درست کروں گا۔

یہ حدیث شیئر کریں