پاکیزگی کا بیان
راوی:
وَعَنْ شَبِیْبِ بْنِ اَبِی رُوْحِ عَنْ رَجُلِ مِنْ اَصْحَابِ رَسُوْلِ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم اَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم صَلَّی صَلاَۃَ الصُّبْحِ فَقَرَا الرُّوْمَ فَالْتَبَسَ عَلَیْہِ فَلَمَّا صَلَّی قَالَ مَا بَالُ اَقْوَامِ یُصَلُّونَ مَعَنَا لاَ یُحْسُنْونَ الطُّھُوْرَوَاِنَّمَا یَلَبِّسُ عَلَیْنَا قُرْآنَ اُوْلٰئِکَ۔ (رواہ السنن نسائی )
" اور حضرت شبیب بن ابی روح رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے کسی صحابی سے روایت کرتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک مرتبہ) صبح کی نماز پڑھی اور اس کے اندر سورت روم کو پڑھا (اثناء نماز میں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو متشابہ ہوا چنانچہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ چکے تو فرمایا " لوگوں کو کیا ہوا ہے کہ ہمارے ساتھ پڑھتے ہیں اور اچھی طرح وضو نہیں کرتے اور اس وجہ سے یہ لوگ ہم پر قرآن میں متشابہ ڈالتے ہیں" ۔ (سنن نسائی )
تشریح :
اس حدیث میں اس طرف اشارہ ہے کہ کسی عمل اور کسی عبادت کے جو سنن و آداب ہوتے ہیں وہ واجب کو کامل کرتے ہیں اور برکت کا سبب ہوتے ہیں، اسی برکت کا اثر نہ صرف یہ کہ عامل ہی کی ذات تک محدود رہتا ہے، بلکہ وہ برکت دوسروں میں بھی سرائیت کرتی ہے جیسے کہ کوتاہی اور قصور عامل کی ذات کے علاوہ دوسرے کے ضرر کا بھی باعث ہوتے ہیں نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سنن و آداب پر عمل نہ کرنے سے فتوحات غیبیہ کا دروازہ بند ہوتا ہے۔
یہ حدیث درحقیقت ان بے بصیرت لوگوں کے لئے تازیانہ عبرت ہے جو صحبت کی تاثیر کے منکر اور اس سے غافل ہیں لہٰذا ایسے لوگوں کے لئے غور کرنے کا مقام ہے کہ سرکار دو عالم، سید الرسل صلی اللہ علیہ وسلم پر باوجود اس رتبہ کے اور قرآن پڑھنے کی حالت میں جو تقرب الی اللہ کا وقت ہے ایک ادنیٰ امتی کی صحبت نے اثر کیا جس سے وضو کے آداب و سنت میں کوئی کوتاہی یا قصور ہوگیا تھا جس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرأت میں متشابہ لگا تو ایسے لوگوں کا کیا حشر ہوگا جو شب و روز اہل فسق اور اہل بدعت کی صحبت کو اختیار کئے رہتے ہیں۔
لہٰذا معلوم ہوا کہ بھلائی اور بہتری اسی میں کہ اہل فسق اور اہل بدعت کی صحبت و ہم نشینی کو بالکل ترک کر کے علماء حق، صوفیائے کرام اور اللہ کے نیک بندوں کی صحبت اختیار کی جائے تاکہ ان کی ہم نشینی اور صحبت کے اثرات و برکات اپنے اندر پیدا ہوں جو دین و دنیا دونوں جگہ کی بھلائی کے لئے ضامن ہیں۔
ابتداء روایت میں راوی نے اس صحابی کا نام ذکر نہیں کیا ہے جس سے یہ حدیث حاصل کی گئی ہے مگر حضرت میرک شاہ صاحب نے لکھا ہے کہ وہ صحابی حضرت ابوذر غفاری ہیں۔