مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ علم کا بیان ۔ حدیث 262

علم اور اس کی فضیلت کا بیان

راوی:

وَعَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ تَعَوَّذُوْابِاﷲِ مِنْ جُبِّ الْحُزْنِ قَالُوْ یَا رَسُوْلَ اﷲِ وَمَا حُبُّ الْحُزْنِ قَالَ وَادِ فِی جَھَنَّمَ تَتَعَوَّذُ مِنْہ، جَھَنَّمُ کُلَّ یَوْمِ اَرْبَعَ مِائَۃَ مَرَّۃِ قِیْلَ یَا رَسُوْلَ اﷲِ وَمَنْ یَّدْخُلُھَا قَالَ الْقُرَاءُ الْمُرَاءُ وْنَ بِاَعْمَالِھِمْ رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ وَکَذَا بْنُ مَاجَۃَ زَادَفِیْہِ وَاِنَّ مِنْ اَبْغَضِ الْقُرَّآءِ اِلَی اﷲِ تَعَالیٰ اَلَّذِیْنَ یَزُوْرُوْنَ الْاُمَرَآءَ قَالَ الْمُحَارِبِیُّ یَعْنِی الْجَوْرَۃَ۔ (رواہ الجامع ترمذی وابن ماجۃ)

" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم (صحابہ کو مخاطب کرتے ہوئے ) فرمایا۔ تم اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگو حب الحزن یعنی غم کے کنویں سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ ! غم کا کنواں کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ دوزخ میں ایک نالہ ہے جس سے دوزخ دن میں چار سو مرتبہ پناہ مانگتی ہے۔ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ ! اس میں کون داخل ہوگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ قرآن پڑھنے والے جو اپنے اعمال کو دکھانے کے لئے کرتے ہیں۔ (جامع ترمذی و سنن ابن ماجہ) اور سنن ابن ماجہ کی روایت میں یہ الفاظ زیادہ ہیں اللہ کے نزدیک مبغوض ترین وہ قاری ہیں جو سرداروں سے ملاقات کرتے ہیں اس حدیث کے راوی حاربی نے کہا ہے کہ سرداروں سے مراد ظالم سردار ہیں۔" ( جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ)

تشریح :
" جب الحزن" دوزخ کی ایک وادی کا نام ہے جو بہت گہری ہے اور کنوئیں کے مشابہ ہے یہ اتنی زیادہ ہیبت ناک اور وحشت ناک ہے کہ دوزخی تو الگ رہے خود دوزخ دن میں چار سو مرتبہ اس سے پناہ مانگتی ہے۔ چنانچہ فرمایا جا رہا کہ وہ قاری جو اپنا عمل یعنی قرآن پڑھنا محض دکھلا وے و ریاء کے لئے کرتے ہیں اسی وحشت ناک وادی میں دھکیل دیئے جائیں گے۔ اسی حکم میں ریاکار عالم اور عابد بھی داخل ہیں، کیونکہ علم کی اصل بنیاد تو قرآن ہی ہے اسی طرح عبادت بھی قرآنی احکام ہی کے مطابق ہوتی ہے۔ اس لئے ایسے عالم اور عابد جو ریاء کار ہیں وہ انہیں قاریوں کے ہمراہ اسی کنواں کا لقمہ بنیں ۔
" سرداروں سے ملاقات " کا مطلب یہ ہے کہ جو قاری سرداروں سے محض حب جاہ و مال اور دنیاوی طمع و لالچ کی خاطر ملتا ہے وہ اللہ کے نزدیک مبغوض ترین ہے۔ ہاں اگر سرداروں سے ملنا امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے لئے ہو یا بطریق جبر اور ان کے شرک کے دفعیہ کے لئے ہو تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
نیز یہاں سرداروں سے بھی وہی سردار مراد ہیں جو ظالم اور جابر ہوں، نیک بخت سردار یا عادل امیر و حاکم کا یہ حکم نہیں ہے۔ کیونکہ ایسے امراء و سردار جو اللہ کے نیک بندے ہوں ان سے ملاقات کرنا عبادت میں داخل ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں