علم اور اس کی فضیلت کا بیان
راوی:
وَعَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ مَسْعُودٍص قَالَ ےَا اَےُّھَا النَّاسُ مَنْ عَلِمَ شَےْئًا فَلْےَقُلْ بِہٖ وَمَنْ لَّمْ ےَعْلَمْ فَلْےَقُلِ اللّٰہُ اَعْلَمُ فَاِنَّ مِنَ الْعِلْمِ اَنْ تَقُوْلَ لِمَا لَا تَعْلَمُ اَللّٰہُ اَعْلَمُ قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی لِنَبِےِّہٖ قُلْ مَا اَسْئَلُکُمْ عَلَےْہِ مِنْ اَجْرٍ وَمَا اَنَا مِنَ الْمُتَکَلِّفِےْنَ۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
" اور مروی ہے کہ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے (لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا) اے لوگو! جو آدمی کسی بات کو جانتا ہو تو چاہئے کہ وہ اسے بیان کر دے، اور جو نہ جانتا ہو تو چاہئے کہ وہ کہے کہ اللہ تعالیٰ زیادہ جانتا ہے اس لئے کہ جس چیز کا اسے علم نہیں ہے، اس کے بارے میں اللہ زیادہ جانتا ہے۔ کہنا بھی علم کی ایک قسم ہے (یعنی معلوم کا غیر معلوم سے تمیز کرنا بھی علم کی ایک قسم ہے ) چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے فرمایا ہے کہ آیت (قُلْ مَا اَسْ َ لُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ اَجْرٍ وَّمَا اَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِيْنَ) 38۔ص : 86) ترجمہ : " یعنی اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) کہہ دیجئے کہ میں اس قرآن پر تم سے کوئی بدلہ نہیں مانگتا اور میں تکلف کرنے والے لوگوں میں سے نہیں ہو۔" (صحیح البخاری )
تشریح :
اس آیت کے ذریعے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا جارہا ہے کہ آپ لوگوں سے کہہ دیں کہ اللہ نے جو کچھ علم مجھے دیا اور جتنا مجھے سکھا دیا اور پھر اس کو پھیلانے اور لوگوں کو سکھانے کا حکم دیا اسی کو لوگوں تک پہنچاتا اور انہیں سکھاتا ہوں۔ اس کے علاوہ میں کسی دوسری چیز کا دعویٰ اپنی طرف سے نہیں کرتا اور نہ ان چیزوں سے بحث کرتا ہوں جو مشکل اور سخت ہونے کی وجہ سے عوام کے فہم سے بلند و بالا ہیں کیونکہ ایسا کرنا خواہ مخواہ کا تکلف کرنا ہے۔