علم اور اس کی فضیلت کا بیان
راوی:
وَعَنْ زِیَادِ بْنِ حُدَیْرِ رَضِیَ اﷲُ عَنْہُ قَالَ قَالَ لِیْ عُمَرُ ھَلْ تَعْرِفُ مَا یَھْدِمُ الْاِسْلَامَ قُلْتُ لَا قَالَ یَھْدِمُہ، زَلَّۃُ الْعَالِمِ وَجِدَالُ الْمُنَافِقِ بِالْکِتَابِ وَحُکْمُ الْاَئِمَّۃِ الْمُضَلِّیْنَ۔ (رواہ الدارمی)
" اور حضرت زیاد بن حدیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھ سے فرمایا کہ کیا تم جانتے ہو کہ اسلام کی عمارت کو ڈھانے والی کیا چیز ہے؟ میں نے کہا مجھے نہیں معلوم! حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا۔ عالم کا پھسلنا (یعنی کسی مسئلہ میں عالم کا غلطی کرنا اور اس کا گناہ کرنا، منافق کا کتاب اللہ میں جھگڑنا اور گمراہ سرداروں کا حکم جاری کرنا اسلام (کی عمارت ) کو تباہ و برباد کردیتا ہے۔" (دارمی)
تشریح :
اسلام کی عمارت کو ڈھا دینے کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کے جو پانچ بنیادی اصول ہیں، یعنی کلمہ، تو حید، نماز، روزہ، زکوۃ اور حج۔ وہ بیکارِ محض ہو کر رہ جائیں، چنانچہ جب عالم اپنے حقیقی فرائض یعنی امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی ادائیگی کو اپنی خواہشات نفسانی کی بھینٹ چڑھا دیتا ہے تو ان چیزوں میں سستی اور فساد واقع ہو جاتا ہے۔
اسی طرح منافق یعنی وہ آدمی جو بظاہر تو اسلام کا دم بھرتا ہے مگر اندرونی طور پر وہ کفر و بدعت کا پوری طرح ہمنوا ہوتا ہے۔ جب قرآن میں جھگڑتا ہے بایں طور پر وہ قرآن کے معنی و مفہوم کی غلط تاویلات کر کے احکام شرعیہ کو رد کرتا ہے تو اس سے ارکان اسلام میں سستی اور دین میں فساد پیدا ہوتا ہے۔
اسی زمرہ میں وہ روافض اور خوراج نیز دیگر باطل عقائد کے لوگ بھی داخل ہیں جو اپنی خواہشات نفسانی اور ذاتی اغراض کی خاطر غلط سلط تاویلیں کر کے دین و شریعت میں شک و شبہہ کا بیج بوتے ہیں۔