علم اور اس کی فضیلت کا بیان
راوی:
وَعَنْ عَآئِشَۃَ اَنْھَا قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم یَقُوْلُ اِنَّ اﷲَ عَزَّوَجَلَّ اَوْحٰی اِلَیَّ اَنَّہ، مَنْ سَلَکَ مَسْلَکًا فِی طَلَبِ الْعِلْمِ سَھْلَتُ لَہ، طَرِیْقَ الْجَنَّۃِ وَمَنْ سَلَبْتُ کُرِیْمَتَیْہِ اَثَبْتُہُ عَلَیْھِمَا الْجَنَّۃَ وَفَضْلٌ فِی عِلْمِ خَیْرٌ مِنْ فَضْلِ فِی عِبَادَۃِ وَمِلَاکُ الدِّیْنِ الْوَرَعُ۔ (رواہ البیہقی فی شعب الایمان)
" حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میری طرف یہ وحی (خفی) بھیجی ہے کہ جو طلب علم کے لئے راستہ اختیار کرے تو میں اس پر جنت کے راستے کو آسان کردوں گا اور جس آدمی کی میں نے دونوں آنکھیں چھین لی ہوں (یعنی کوئی آدمی نابینا ہوگیا ہو) تو اس دنیاوی نعمت سے محرومی اور اس پر صبر و شکر کی بناء پر میں اس کا بدلہ اسے جنت دوں گا اور علم کے اندر زیادتی عبادت میں زیادتی سے بہتر ہے اور دین کی جڑ پرہیز گاری ہے۔" (بیہقی)
تشریح :
ارشاد کا مقصد یہ ہے کہ جو آدمی علم دین کے حصول کے لئے کسی راستہ کو اختیار کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس پر جنت کی راہ آسان کر دے گا یعنی دنیا میں معرفت و حقیقت کی دولت سے نوازا جائے گا اور عبات الٰہی کی توفیق عنایت فرمائی جائے گی تاکہ وہ اس کے سبب جنت میں داخل ہوسکے، یا اس کے معنی یہ ہیں کہ ایسے آدمی پر آخرت میں جنت کے دروازے کا راستہ اور جنت میں جو محل اہل علم کے لئے مخصوص ہے اس کی راہ آسان کردی جائے گی۔
گو اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ دنیا میں علم کی جو راہ ہے وہی آخرت میں جنت کی بھی راہ ہے اور علم کے دروازوں کے علاوہ جنت کی تمام راہیں بند ہیں یعنی بغیر علم کے جنت میں داخل ہونا مشکل ہے مگر شرط یہی ہے کہ علم خلوص نیت اور للّٰہیت کے جذبہ سے حاصل کیا گیا ہو اور پھر اس عمل کی توفیق بھی ہوتی ہو رونہ علم بغیر خلوص اور بغیر عمل کے کوئی حقیقت نہیں رکھے گا اور اس کا مصداق ہوگا کہ
چار پایہ بروکتا بے چند
آخر حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ دین کی اصل اور جڑ ورع (یعنی پرہیزگاری) ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ حرام، منکرات اور طمع سے بچنا چاہئے تاکہ عبادات میں ریاء اور عدم اخلاص پیدا نہ ہو۔