علم اور اس کی فضیلت کا بیان
راوی:
وَعَنْ عِکْرِمَۃَرَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالیٰ اَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍص قَالَ حَدِّثِ النَّاسَ کُلَّ جُمُعَۃٍ مَّرَّۃً فَاِنْ اَبَےْتَ فَمَرَّتَےْنِ فَاِنْ اَکْثَرْتَ فَثَلٰثَ مَرَّاتٍ وَلَا تُمِلَّ النَّاسَ ھٰذَا الْقُرْاٰنَ وَلَا اُلْفِےَنَّکَ تَاْتِیْ الْقَوْمَ وَھُمْ فِیْ حَدِےْثٍ مِّنْ حَدِےْثِھِمْ فَتَقُصَّ عَلَےْھِمْ فَتَقْطَعُ عَلَےْھِمْ حَدِےْثَھُمْ فَاتُمِلَّھُمْ وَلٰکِنْ اَنْصِتْ فَاِذَا اَمَرُوْکَ فَحَدِّثْھُمْ وَھُمْ ےَشْتَھُوْنَہُ وَانْظُرِ السَّجْعَ مِنَ الدُّعَآءِ فَاجْتَنِبْہُ فَاِنِّیْ عَھِدْتُّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم وَاَصْحَابَہُ لَا ےَفْعَلُوْنَ ذٰلِکَ۔ (صحیح البخاری)
" اور حضرت عکرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے عکرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا۔ تم ہر جمعہ کو ایک بار لوگوں کے سامنے حدیث بیان کرو۔ اگر اسے قبول نہ کرو ( یعنی ہفتہ میں ایک بار وعظ نصیحت کو کافی نہ جانو تو ہفتہ میں) دوبار اور زیادہ چاہو تو (ہفتہ میں تین بار و عظ و نصیحت کر سکتے ہو) اور تم لوگوں کو اس قرآن سے تنگ نہ کرو ( یعنی ہفتہ میں تین بار سے زیادہ وعظ و نصیحت بیان کر کے لوگوں کو ملول نہ کرو) اور میں تمہیں اس حالت میں نہ پاؤں کہ تم کسی قوم کے پاس جاؤ اور وہ اپنی باتوں میں مشغول ہوں اور تم ان کی باتوں کو منقطع کر کے ان کے سامنے وعظ و نصیحت شروع کر دو اور (اس طرح) تم ان کو کبیدہ خاطر کرو۔ ایسے موقع پر تمہیں چاہئے کہ تم خاموش رہو البتہ وہ اگر تم سے وعظ و نصیحت کی فرمائش کریں تو جب تک اس کے خواہش مند ہوں تم ان کے سامنے حدیث بیان کرو اور تم دعا میں مقفیٰ عبارت سے صرف نظر کرو اور اس سے بچو، چنانچہ میں نے معلوم کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب ایسا نہیں کرتے تھے (یعنی دعا میں مقفیٰ عبارت استعمال نہیں کرتے تھے۔" (صحیح البخاری )
تشریح :
جیسا کہ پچھلے صفات میں گزر چکا ہے اس حدیث میں بھی اس پر زور دیا جا رہا ہے کہ وعظ و نصیحت کے معاملہ میں اعتدال اور موقع و ماحول کی رعایت ضروری ہے اور اثر اندازی کے اعتبار سے دعوت و تبلیغ کا یہ بنیادی پتھر ہے جس پر تبلیغ کی کامیابی کا پورا دار و مدار ہے۔
اس سلسلہ میں خاص طور پر یہ بتایا جا رہا ہے کہ اگر کچھ لوگ کسی بات چیت اور آپس کی گفتگو میں مشغول ہوں تو ایسے موقع پر پہنچ کر وعظ و نصیحت شروع نہیں کر دینی چاہئے، چاہے ان کی بات چیت دنیاوی امور سے متعلق ہو یا دینی باتوں پر مشتمل ہو۔ اگر وہ دین کی بات میں مشغول ہیں تو ظاہر ہے کہ بدرجہ اولیٰ ان کی بات کو منقطع کرنا اور اس میں خلل انداز ہونا خواہ وہ تبلیغ ہی کی خاطر کیوں نہ ہو مناسب نہیں ہوگا۔ اگر بات چیت کا موضوع خالص دنیا بھی ہو تو ایسا کرنا مناسب نہیں ہے کیونکہ جب ایک آدمی اپنی کسی ضروری گفتگو میں مشغول ہو اور وہاں پہنچ کر وعظ و نصیحت شروع کر دی جائے تو گفتگو میں خلل پڑنے کی وجہ سے ہو سکتا ہے کہ وہ بتقاضائے بشریت اسے گوارہ نہ کرے اور وہ ایسے موقع پر قرآن وحدیث کی باتیں سننا پسند نہ کرے جس کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ وہ خواہ مخواہ گناہ میں مبتلا ہوگا بلکہ اس کے قلب پر دین کی عظمت و اہمیت کا نقش بھی قائم نہ ہوگا۔
ہاں اگر مصلحت کا تقاضا ہی یہ ہو کہ انہیں اس گفتگو سے باز رکھا جائے تو پھر ایسا انداز اور طریقہ اختیار کرنا چاہئے جس سے انہیں ناگواری بھی نہ ہو اور وہ اس کلام و گفتگو سے رک بھی جائیں ، غرض کہ نظر مصلحت ضرورت وقت پر رکھنی چاہئے۔
ویسے جہان تک عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے قول کا تعلق ہے اس کے بارے میں یہ کہا جائے گا کہ ان کا عکرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دینا اکثر کے اعتبار سے تھا یعنی یہ اس وقت کی بات ہے جب کہ اکثر و بیشتر لوگ محض دنیاوی باتوں ہی میں مشغول رہا کرتے تھے۔
" دعا میں مقفیٰ عبارت" کا مطلب یہ ہے کہ دعا تایثر کے اعتبار سے وہی بہتر ہوتی ہے جو بغیر تصنع و بناوٹ کے سیدھی سادھی ہو اور دل کی گہرائیوں سے نکلی ہو۔ اس لئے دعا کی عبارت کو شعر و شاعری کا رنگ دینا، الفاظ میں قافیہ اور تکلف نہیں کرنا چاہئے۔ اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان دعاؤں پر اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔ جو مقفی و مسجع ثابت ہیں اور جن میں قفیہ بندی بھی ہے۔ اس لئے یہ چیزیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بے تکلف اور از خود صادر ہوتی تھیں ان میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تکلف اور کوشش کو دخل نہیں ہوتا تھا۔