علم اور اس کی فضیلت کا بیان
راوی:
وَعَنْہُ مُرْسَلًا قَالَ سُئِلَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم عَنْ رَجُلَیْنِ کَانَا فِی بَنِیۤ اِسْرَآئِیْلَ اَحَدُھُمَا کَانَ عَالِمًا یُصَلِّی الْمَکْتُوْبَۃَ ثُمَّ یَجْلِسُ فَیُعَلِّمُ النَّاسَ الْخَیْرَ، وَالْاٰخِرُ یَصُوْمُ النَّھَارَ وَیَقُوْمُ اللَّیْلَ اَیُّھُمَا اَفْضَلُ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ فَضْلُ ھٰذَا الْعَالِمِ الَّذِی یُصَلِّی الْمَکْتُوْبَۃَ ثُمَّ یَجْلِسُ فَیُعَلِّمُ النَّاسَ الْخَیْرَ عَلَی الْعَابِدِ الَّذِیْ یَصُوْمُ النَّھَارَ وَ یَقُوْمُ اللَّیْلَ کَفَضْلِی عَلَی اَدْنَا کُمْ۔ (رواہ الدارمی)
" اور حضرت حسن بصری رحمہ اللہ تعالیٰ ( حضرت حسن بصری رحمہ اللہ تعالیٰ تابعی ہیں آپ کی پیدائش مدینہ میں ہوئی تھی۔ ١١٠ھ میں آپ کا انتقال ہوا ہے۔) سے بطریق مرسل روایت ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے بنی اسرائیل کے دو آدمیوں کے بارے میں سوال کیا گیا، ان میں سے ایک تو عالم تھا جو فرض نماز پڑھتا تھا پھر بیٹھ کر لوگوں کو علم سکھاتا تھا۔ اور دوسرا آدمی وہ تھا جو دن کو تو روزے رکھتا تھا اور تمام رات عبادت کیا کرتا تھا (چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا) کہ ان دونوں میں بہتر کون ہے؟ آنحصرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اس عالم کو جو فرض نماز پڑھتا ہے اور بیٹھ کر لوگوں کو علم سکھلاتا ہے اس عابد پر جو دن کو روزہ رکھتا ہے اور رات میں عبادت کرتا ہے ایسی ہی فضیلت حاصل ہے جیسی کہ مجھے تم میں سے ایک ادنیٰ آدمی پر فضیلت حاصل ہے۔" (درامی)
تشریح :
بنی اسرائیل کے مذکورہ دونوں عالم یوں تو اپنے علم و فضل کے اعتبار سے ہم رتبہ تھے مگر فرق یہ تھا کہ ایک عالم نے تو اپنی زندگی کا مقصد صرف عبادت الٰہی بنا لیا تھا چنانچہ وہ دن رات ہمہ وقت عبادت میں مصروف رہا کرتا تھا بندگان اللہ کی اصلاح و تعلیم سے اسے غرض نہیں تھی، مگر دوسرا عالم فرض عبادت بھی پوری طرح ادا کرتا تھا اور اپنے اوقات کا بقیہ حصہ لوگوں کی اصلاح و تعلیم میں بھی صرف کیا کرتا تھا۔ لہٰذا دونوں میں افضل اسی آدمی کو قرار دیا گیا ہے جو خود بھی اپنے علم پر عمل کرتا تھا اور دوسروں کو بھی علم سکھلا کر انہیں راہ ہدایت پر لگاتا تھا۔