علم اور اس کی فضیلت کا بیان
راوی:
وَعَنْ مُعَاوِیَۃَ قَالَ اِنَّ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم نَھٰی عَنِ الْاُغْلُوْطَاتِ۔ (راوہ ابوداؤد)
" اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے مغالطہ دینے سے منع فرمایا ہے۔" (سنن ابوداؤد)
تشریح :
اس ارشاد کا مقصد اس چیز پر تنبیہ ہے کہ علماء سے ایسے مسائل نہ پوچھے جائیں جو مشکل اور پیچیدہ ہونے کی وجہ سے انہیں مغالطہ میں ڈال دیں یا جن سے سائل کا مقصد ہی علماء کو پریشان کرنا اور ان کو مغالطہ میں ڈالنا ہو اس لئے کہ اکثر ایسا ہوتا ہے بعض حضرات جن کے قلب و دماغ علماء کی عزت و عظمت سے خالی ہوتے ہیں وہ انہیں آزمائش میں ڈالنے یا لوگوں کے سامنے ان کی ہتک کرانے کے لئے ان کے سامنے ایسے مسائل بنا بنا کر پیش کرتے ہیں جن میں وہ چکرا جاتے ہیں اور مغالطہ میں پڑ جاتے ہیں۔
اس سلسلہ میں جہاں تک مسئلہ کا تعلق ہے وہ یہ ہے کہ اگر کسی نے ابتداء ہی میں ایسا سوال کیا تو یہ حرام ہے کیونکہ اس سے ایک مومن کی ایذاء رسانی اور ذہنی تکلیف کا سامان فراہم ہوتا ہے، نیز یہ فتنہ و فساد اور عداوت و نفرت کا سبب ہے، دوسرے یہ کہ ایسے مواقع پر ازراہِ فخر و تکبر اپنی فضیلت و قابلیت کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ یہ تمام چیزیں حرام ہیں۔
لیکن اگر ایسی شکل ہے کہ دوسرے نے اس سے ایسا سوال کیا اور اس نے اس کے جواب میں الزاماً ایسا ہی سوال کیا تو یہ حرام نہیں ہے۔