مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ علم کا بیان ۔ حدیث 220

علم اور اس کی فضیلت کا بیان

راوی:

وَعَنِ ابْنِ مَسْعُوْدِ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم نَضَّرَ اﷲُ عَبْدًاسَمِعَ مَقَالَتِی فَحَفِظَھَا وَوَعَاھَا وَاَدَّاھَا فَرُبَّ حَامِلِ فِقْہِ غَیْرُ فَقِیْہِ وَرُبَّ حَامِلِ فِقْہِ اِلٰی مَنْ ھُوَ اَفْقَہ، مِنْہ،۔ ثَلَاثٌ لَا یَغُلُّ عَلَیْھِنَّ قَلْبُ مُسْلِمِ، اِخْلَاصُ الْعَمَلِ لِلّٰہِ وَالنَّصِیْحَۃُ لِلْمُسْلِمِیْنَ وَلُزُوْمُ جَمَا عَتِھِمْ فَاِنَّ دَعْوَتَھُمْ تُحِیْطُ مِنْ وَّرَائِھِمْ رَوَاہُ الشَّافِعِیُّ وَالبَیْھَقِیُّ فِی الْمَدْخَلِ وَرَوَاہُ اَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِیُّ وَاَبُوْدَاؤدَ وَابْنُ مَاجَۃً وَالدَّارِمِیُّ عَنْ زَیْدِ بْنِ ثَابِتِ اِلَّا اَنَّ التِّرْمِذِیَّ وَاٰبَا دَاوُدَ لَمْ یَذْکُرَا ثَلَاثٌ لاَ یَغُلُّ عَلَیْھِنَّ اِلٰی اٰخِرِہٖ۔

" اور حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ اللہ تعالیٰ اس بندہ کو تر و تازہ رکھے (یعنی اس کی قدر و منزلت بہت کافی ہو اور اسے دین و دنیا کی خوشی و مسرت کے ساتھ رکھے) جس نے میری کوئی بات سنی اور اسے یاد رکھا اور ہمیشہ یاد رکھا اور اس کو جیسا سنا ہو پہر لوگوں تک پہنچایا۔ کیونکہ بعض حامل فقہ (یعنی علم دین کے حامل) فقیہ (یعنی سمجھ دار) نہیں ہوتے اور بعض حامل فقہ ان لوگوں تک پہنچا دیتے ہیں جو ان سے زیادہ فقیہ (سمجھ دار) ہوتے ہیں۔ اور تین چیزیں ایسی ہیں جن میں مسلمان کا دل خیانت نہیں کرتا ۔ ایک تو عمل خاص طور پر اللہ کے لئے کرنا، دوسرے مسلمانوں کے ساتھ بھلائی کرنا اور تیسرے مسلمانوں کی جماعت کو لازم پکڑنا۔ اس لئے کہ جماعت کی دعا ان کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہے۔" (شافعی، بیہقی)

تشریح :
مطلب یہ کہ حدیث کو محفوظ اور یاد رکھنے والے بعض تو ایسے ہوتے ہیں جو خود زیادہ سمجھ دار نہیں ہوتے اور بعض سمجھ رکھتے ہیں لیکن ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ جس کے سامنے حدیث بیان کرتے ہیں وہ ان سے زیادہ سمجھ رکھتا ہے لہٰذا چاہئے کہ حدیث جس طرح سنی جائے اسی طرح دوسروں تک اسے پہنچایا جائے تاکہ جس کو حدیث پہنچائی جارہی ہے اور جس کے سامنے بیان کی جارہی ہے وہ حدیث کا مطلب بخوبی سمجھ لے۔ اس حدیث سے اس طرف اشارہ کر دیا ہے کہ راویان حدیث کو چاہئے کہ وہ حدیث کو جن الفاظ میں سنیں بعینہ انہیں الفاظ میں نقل کریں۔
" یغل" اگر یاء کے زبر اور غین کے زیر کے ساتھ ہو تو اس کے معنی حقد یعنی کینہ کے ہوتے ہیں اور اگر یا کے پیش اور غین کے زبر کے ساتھ ہو یا حرفِ یا کے زبر غین کے پیش کے ساتھ ہو تو اس کے معنی خیانت کے ہو جاتے ہیں چنانچہ فرمایا جا رہا ہے کہ مومن ان تین چیزوں میں خیانت نہیں کرتا یعنی مومن کے اندر یہ تینوں چیزیں ضرور پائی جاتی ہیں اور جب مومن سے یہ تینوں اعمال صادر ہوتے ہیں تو اس میں کینہ داخل ہوتا کہ وہ ان چیزوں سے منحرف کردے۔
" خلوص عمل" کا مطلب اور اس کا انتہائی درجہ یہ ہے کہ بندہ جو عمل کرے وہ محض اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور اس کی رضاء کے لئے کرے۔ اس کے علاوہ اس کا مقصد کوئی دوسرا نہ ہو، نہ کوئی دنیوی غرض ہو اور نہ کوئی اخروی منفعت صرف رضائے مولا ہی سامنے ہو اور وہی حاصل مقصد پھر اس میں بھی دو درجے ہوجاتے ہیں۔ عام لوگوں کا جو خلوص عمل ہوتا ہے وہ خاص یعنی اہل اللہ کے خلوص عمل سے کمتر درجہ کا ہوتا ہے کیونکہ یہ لوگ اپنی ریاضت و مجاہدہ اور تلعق مع اللہ کی بنا پر خلوص کی انتہائی بلندیوں تک پہنچے ہوئے ہوتے ہیں۔
مسلمانوں کے ساتھ بھلائی کا طریقہ یہ ہے کہ حتی المقدور اپنے دوسرے بھائیوں کو خیر و بھلائی کی نصیحت کرتا رہے اور انہیں سیدھی راہ پر لگانے کی کوشش کرتا رہے، نیز دنیاوی اعتبار سے ان کی امداد و اعانت کرے اور ان کی ہر مشکل میں خبر گیری رکھے۔
" مسلمانوں کی جماعت کو لازم پکڑنے" کے معنی یہ ہیں کہ زندگی کے ہر مرحلہ پر اجتماعیت کے اصول پر کار بند رہے اور اپنے آپ کو کبھی انفرادیت کی راہ پر نہ ڈالے، علماء دین اور علمائے امت کے متفقہ عقائد صحیحہ اور اعمال صالحہ کی موافقت کرتا رہے اور ان کے ساتھ رہے۔ مثلاً نماز جمعہ اور جماعت وغیرہ میں ان لوگوں کے ہمراہ رہ کر اجتماعیت کو فروغ دے تاکہ اسلامی طاقت و قوت میں بھی اضافہ ہو اور رحمت الٰہی کے نزول کا سبب بھی کیونکہ جماعت پر اللہ کی رحمت ہوتی ہے۔
لفظ من و رائھم مشکوۃ کے بعض نسخوں میں میم کے زیر کے ساتھ ہے اور بعض نسخوں میں زبر کے ساتھ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ شیطان کے مکر و فریب سے بچنے کے لئے جماعت کو مسلمانوں کی دعا گھیرے ہوئے ہے جس کی بنا پر وہ شیطان کی گمراہی سے بچتے ہیں۔ اس میں اس بات پر تنبیہہ مقصود ہے کہ جو کوئی علمائے دین اور صلحائے امت کی جماعت سے اپنے آپ کو الگ کر لیتا ہے اس کو نہ جماعت کی برکت میسر ہوتی ہے اور نہ مسلمانوں کی دعا حاصل ہوتی ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں