علم اور اس کی فضیلت کا بیان
راوی:
وَعَنْ اَنَسِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم مَنْ خَرَجَ فِی طَلَبِ الْعِلْمِ فَھُوَفِی سَبِیْلِ اﷲِ حَتّٰی یَرْجِعَ۔ (رواہ الجامع ترمذی والدارمی)
" اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ جو آدمی گھر سے علم حاصل کرنے کے لئے نکلا تو وہ جب تک کہ (گھر) واپس نہ آجائے اللہ کی راہ میں ہے۔" (جامع ترمذی، درامی)
تشریح :
اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ جو آدمی اپنے عزیز و اقا رب کو چھوڑ کر ماں باپ کی محبت و شفقت سے منہ پھیر کر اور اپنے گھر بار کی تمام راحتیں ترک کر کے علم دین حاصل کرنے کے لئے اپنے وطن و شہر سے نکلتا ہے خواہ وہ علم فرض عین ہو یا فرض کفایہ یعنی ضرورت و حاجت سے زیادہ، تو وہ طالب علم مجاہد فی سبیل اللہ کے مرتبہ کا ہوتا ہے جو ثواب اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کو ہوتا ہے وہی ثواب اس طالب کو بھی ملتا ہے، اس لئے کہ جس طرح ایک مجاہد سر پر کفن باندھ کر محض اس جذبہ سے میدان جنگ میں پہنچتا ہے کہ وہ اللہ کے دین کو سر بلند کرے اور اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کا بول بالا کرے اسی طرح طالب علم محض اس مقصد کے لئے علم دین حاصل کرنے کے لئے گھر سے نکلتا ہے تاکہ وہ اپنے نفس کی تمام خواہشات کو ختم کر کے اور کسر نفسی اختیار کر کے علم الہٰی کی مقدس روشنی سے ظلم و جہل کی تمام تاریکیوں کو دور کردے، اللہ کے دین کو تمام عالم میں پھیلائے اور شیطان کے مکر و فریب سے لوگوں کو محفوظ رکھ کر شیطان کو ذلیل و خوار کرے۔ لہٰذا یہ جب تک علم حاصل کر کے اپنے گھر واپس نہیں آجاتا برابر میدان جِہاد کا ثواب حاصل کرتا رہتا ہے۔
پھر اس حدیث میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ جب طالب علم حصول علم سے فارغ ہو کر اپنے گھر واپس آجاتا ہے تو اس سے بھی زیادہ مرتبہ اور درجہ پاتا ہے کیونکہ جب وہ تعلیم کو مکمل کر کے لوٹتا ہے تو دنیا میں علم و معرفت کی روشنی پھیلانے، لوگوں کو تعلیم دینے اور انسانی زندگی کو علم و عمل سے کامل کرنے کے لئے ایک مصلح اور معلم کی حیثیت میں آتا ہے جس کی وجہ سے وہ وارث انبیاء کے معزز و مقدّس لقب سے نوازا جاتا ہے۔