مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ علم کا بیان ۔ حدیث 210

علم اور اس کی فضیلت کا بیان

راوی:

وَعَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم اَلْکَلِمَۃُ الْحِکْمَۃُ ضَالَّۃُ الْحَکِیْمِ فَحَیْثُ وَجَدَھَا فَھُوَا حَقُّ بِھَا رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ وَابْنُ مَاجَۃَ وَقَالَ التِّرْمِذِیُّ ھٰذَا حَدِیْثٌ غَرِیْبٌ وَاِبْرَاھِیْمُ بْنُ الْفَضْلِ الرَّاوِی یُضَعَّفَ فَی الْحَدِیْثِ۔

" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ (دین میں) فائدہ دینے والی بات دانش مند آدمی کا مطلوب ہے لہٰذا وہ جہاں اسے پائے اس کا مستحق ہے۔ اور جامع ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے اور اس حدیث میں ایک راوی ابراہیم ابن فضل ہیں جو کو (روایت حدیث میں) ضعیف خیال کیا جاتا ہے۔ " (جامع ترمذی و سنن ابن ماجہ)

تشریح :
یہ حدیث دانشمندی اور صاحبِ فہم انسان کو یہ احساس و شعور بخش رہی ہے کہ جب کسی سے دین کی کوئی فائدہ مند بات سنی جائے تو عقل کا یہ تقاضہ ہونا چاہئے کہ فوراً اسے قبول کر کے اس پر عمل کیا جائے اس لئے کہ عقل و خرد کا یہی تقاضا انسان کی معراج کا ضامن ہوتا ہے۔ یہ انتہائی بے وقوفی اور کم ظرفی کی بات ہے کہ اگر کوئی مفید اور بہتر بات کسی ایسے آدمی سے سنی جائے جو اپنے سے کمتر و کم رتبہ ہو تو اس کو اس لئے ناقابل اعتناء اور ناقابل عمل قرار دے دیا جائے کہ وہ بڑی بات اور چھوٹا منہ ہے۔ اسی وجہ سے علماء نے لکھا ہے کہ اگر کوئی آدمی اس بہتر و حق بات کو تو قابل قبول عمل جانے جو حضرت بایزید بسطامی رحمہ اللہ تعالیٰ جیسے صاحب عقل و تقدس ہستی سے منقول ہو۔ مگر جب وہی بات اپنی کسی کنیز اور لونڈی سے سنے تو اسے ناقابل اعتناء سمجھے تو وہ آدمی مغرور و متکبر کہلائے گا۔
مرد باید کہ گیرد اندر گوش
گرنوشت ست پند بردیوار

یہ حدیث شیئر کریں