علم اور اس کی فضیلت کا بیان
راوی:
وَعَنْ جَرِیرٍ قَالَ کُنَّا فِی صَدْرِ النَّھَارِ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم فَجَآءَ ہُ قَوْمٌ عُرَاۃٌ مُّجْتَابِیْ النِّمَارِ اَوِ الْعَبَآءِ مُتَقَلِّدِی السُّےُوْفِ عَآمَّتُھُمْ مِّنْ مُّضَرَ بَلْ کُلُّھُمْ مِّنْ مُّضَرَ فَتَمَعَّرَ وَجْہُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلملِمَا رَاٰی بِھِمْ مِّنَ الْفَاقَۃِ فَدَخَلَ ثُمَّ خَرَجَ فَاَمَرَ بِلَالًا فَاَذَّنَ وَاَقَامَ فَصَلّٰی ثُمَّ خَطَبَ فَقَالَ ''ےَا اَےُّھَا النَّاسُ'' اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ اِلٰی اٰخِرِ الْاٰےَۃِ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلَےْکُمْ رَقِےْبًا''(النساء : پ٤ ع١٢) وَّالْاٰےَۃَ الَّتِیْ فِی الْحَشْرِ اتَّقُوْا اللّٰہَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ''(الحشر :پ٢٨ ع ٦) تَصَدَّقَ رَجُلٌ مِّنْ دِےْنَارِہٖ مِنْ دِرْھَمِہٖ مِنْ ثَوْبِہٖ مِنْ صَاعِ بُرِّہٖ مِنْ صَاعٍ تَمْرِہٖ حَتّٰی قَالَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَۃٍ قَالَ فَجَاءَ رَجُلٌ مِّنَ الأَنْصَارِ بِصُرَّۃٍ کَادَتْ کَفُّہُ تَعْجِزُ عَنْھَابَلْ قَدْ عَجَزَتْ ثُمَّ تَتَابَعَ النَّاسُ حَتّٰی رَأَ ےْتُ کَوْمَےْنِ مِنْ طَعَامٍ وَّثِےَابٍ حَتّٰی رَاَےْتُ وَجْہَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم ےَتَھَلَّلُ کَاَنَّہُ مُذْھَبَۃٌ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم مَنْ سَنَّ فِی الْاِسْلَامِ سُنَّۃً حَسَنَۃً فَلَہُ اَجْرُھَا وَاَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِھَا مِنْ بَعْدِہٖ مِنْ غَےْرِ اَنْ ےُّنْقَصَ مِنْ اُجُوْرِھِمْ شَیءٌ وَمَنْ سَنَّ فِی الْاِسْلَامِ سُنَّۃً سَےِّئَۃً کَانَ عَلَےْہِ وِزْرُھَا وَوِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِھَا مِنْ بَعْدِہٖ مِنْ غَےْرِ اَنْ ےُّنْقَصَ مِنْ اَوْزَارِھِمْ شَیئٌ۔ (صحیح مسلم)
" اور حضرت جریر رضی اللہ تعالیٰ عنہ (آپ کا اسم گرامی جریر بن عبداللہ ہے اور کنیت ابوعمرو یا ابوعبداللہ ہے قبیلہ بحیلہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے صرف چالیس دن قبل اسلام کی نعمت سے مشرف ہوئے تھے اور مقام قرئیسیا میں ٥١ھ یا ٥٤ھ میں وفات پائی۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہ) راوی ہیں کہ (ایک روز) ہم دن کے ابتدائی حصہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ ایک قوم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئی جو ننگے بدن تھی اور عبایا کمبل لپیٹے ہوئے تھی اور گلے میں تلواریں لٹکی ہوئی تھیں۔ ان میں سے اکثر بلکہ سب کے سب قبیلہ مضر کے لوگ تھے۔ ان پر فاقہ کا اثر دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک متغیر ہوگیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ( ان کے لئے کھانے کی تلاش میں) گھر تشریف لے گئے اور (جب گھر میں کچھ نہ ملا) تو واپس تشریف لائے اور حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو (اذان کہنے کا ) حکم دیا، حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اذان کہی اور تکبیر پڑھی اور جمعہ کی یا ظہر کی نماز پڑھی گئی۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا اور یہ آیت پڑھی آیت (يٰ اَيُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ) 4۔ النساء : 1) ترجمہ!" اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان (آدم ) سے پیدا کیا ہے۔" پوری آیت تلاوت کی جس کا آخری حصہ یہ ہے۔ " البتہ اللہ تعالیٰ تمہارا نگہبان ہے۔" اور پھر یہ آیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھی جو سورۂ حشر میں ہے آیت (وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ) 59۔ الحشر : 18) ترجمہ! " (اے ایمان والو!) اللہ سے ڈرتے رہو اور ہر آدمی دیکھ بھال لے کہ کل (قیامت کے واسطے اس نے کیا ذخیرہ بھیجا ہے۔" پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا۔ " خیرات کرے آدمی اپنے دینار میں سے اپنے درہم میں سے اپنے کپڑے میں سے اپنے گہیوں کے پیمانے میں سے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ خیرات کرے اگرچہ کھجور کا ٹکڑا ہی کیوں نہ ہو۔ راوی فرماتے ہیں کہ ایک انصاری آدمی دینار یا در ہم سے بھری ہوئی ایک تھیلی لایا جس کے وزن سے اس کا ہاتھ تھکنے کے قریب تھا بلکہ تھک گیا تھا۔ پھر لوگوں نے پے در پے چیزوں کا لانا شروع کر دیا یہاں تک کہ میں نے دو تو لے غلّہ اور کپڑے کے (جمع شدہ) دیکھے پھر میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ اقدس (خوشی کی وجہ سے ) کندن کی طرح چمک رہا تھا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو آدمی اسلام میں کسی نیک طریقہ کو رائج کرے تو اسے اس کا بھی ثواب ملے گا اور اس کا ثواب بھی جو اس کے بعد اس پر عمل کرے لیکن عمل کرنے والے کے ثواب میں کوئی کمی نہیں ہوگی اور جس آدمی نے اسلام میں کسی برے طریقہ کو رائج کیا تو اسے اس کا بھی گناہ ہوگا اور اس آدمی کا بھی جو اس کے بعد اس پر عمل کرے گا۔ لیکن عمل کرنے والے کے گناہ میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔" (صحیح مسلم)
تشریح :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو پہلی آیت تلاوت فرمائی وہ سورۂ نساء میں ہے، اس آیت میں خیرات کرنے اور قرابت داروں سے حسن سلوک اور ان کے حقوق کی ادائیگی کے بارے میں ذکر کیا گیا ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو خیرات کرنے اور آنے والی جماعت کی امداد و اعانت پر ترغیب دلائی۔
شروع حدیث میں راوی کا بیان ہے کہ آنے والی جماعت کمبل یا عبا لپٹے ہوئے تھی۔ راوی کا اشتباہ ہے کہ یا تو حدیث میں لفظ النمار ہے یا العباء ہے۔ بہر حال دونوں کمبل کی قسمیں ہیں اور دونوں کے معنی ایک ہی ہیں۔