مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ ایمان کا بیان ۔ حدیث 2

ایمان کا بیان

راوی:

عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه قال : بينا نحن عند رسول الله صلى الله عليه و سلم ذات يوم إذ طلع علينا رجل شديد بياض الثياب شديد سواد الشعر لا يرى عليه أثر السفر ولا يعرفه منا أحد حتى جلس إلى النبي صلى الله عليه و سلم فأسند ركبتيه إلى ركبتيه ووضع كفيه على فخذية وقال : يا محمد أخبرني عن الإسلام قال : " الإسلام : أن تشهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله وتقيم الصلاة وتؤتي الزكاة وتصوم رمضان وتحج البيت إن استطعت إليه سبيلا " . قال : صدقت . فعجبنا له يسأله ويصدقه . قال : فأخبرني عن الإيمان . قال : " أن تؤمن بالله وملائكته وكتبه ورسله واليوم الآخر وتؤمن بالقدر خيره وشره " . قال صدقت . قال : فأخبرني عن الإحسان . قال : " أن تعبد الله كأنك تراه فإن لم تكن تراه فإنه يراك " . قال : فأخبرني عن الساعة . قال : " ما المسؤول عنها بأعلم من السائل " . قال : فأخبرني عن أماراتها . قال : " أن تلد الأمة ربتها وأن ترى الحفاة العراة العالة رعاء الشاء يتطاولون في البنيان " . قال : ثم انطلق فلبثت مليا ثم قال لي : " يا عمر أتدري من السائل " ؟ قلت : الله ورسوله أعلم . قال : " فإنه جبريل أتاكم يعلمكم دينكم " . رواه مسلم ورواه أبو هريرة مع اختلاف وفيه : " وإذا رأيت الحفاة العراة الصم البكم ملوك الأرض في خمس لا يعلمهن إلا الله . ثم قرأ : ( إن الله عنده علم الساعة وينزل الغيث )
الآية

" حضرت عمر بن الخطاب بیان کرتے ہیں کہ ایک دن (ہم صحابہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس مبارک میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ایک آدمی ہمارے درمیان آیا جس کا لباس نہایت صاف ستھرے اور سفید کپڑوں پر مشتمل تھا اور جس کے بال نہایت سیاہ (چمکدار) تھے ، اس آدمی پر نہ تو سفر کی کوئی علامت تھی (کہ اس کو کہیں سے سفر کر کے آیا ہوا کوئی اجنبی آدمی سمجھا جاتا) اور نہ ہم میں سے کوئی اس کو پہچانتا تھا (جس کا مطلب یہ تھا کہ یہ کوئی مقامی آدمی ہو یا کسی کا مہمان بھی نہیں تھا) بہر حال وہ آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اتنے قریب آکر بیٹھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھٹنوں سے اپنے گھٹنے ملا لئے اور پھر اس نے اپنے دونوں ہاتھ اپنی دونوں رانوں پر رکھ لئے (جیسے ایک سعادت مند شاگرد اپنے جلیل القدر استاد کے سامنے باادب بیٹھتا ہے اور استاد کی باتیں سننے کے لئے ہمہ تن متوجہ ہو جاتا ہے ) اس کے بعد اس نے عرض کیا اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم)!مجھ کو اسلام کی حققیت سے آگاہ فرمائیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسلام یہ ہے کہ تم اس حقیقت کا اعتراف کرو اور گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں اور پھر تم پابندی سے نماز پڑھو (اگر صاحب نصاب ہو تو ) زکوۃ ادا کرو، رمضان کے روزے رکھو اور زاد راہ میسر ہو تو بیت اللہ کا حج کرو۔ اس آدمی نے یہ سن کر کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ اس (تضاد) پر ہمیں تعجب ہوا کہ یہ آدمی (ایک لاعلم آدمی کی طرح پہلے تو ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کرتا ہے اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب کی تصدیق بھی کرتا ہے (جیسے اس کو ان باتوں کا پہلے سے علم ہو) پھر وہ آدمی بولا اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم)! اب ایمان کی حقیقت بیان فرمائیے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (ایمان یہ ہے کہ) تم اللہ کو اور اس کے فرشتوں کو اور اس کی کتابوں کو، اس کے رسولوں کو اور قیامت کے دن کو دل سے مانو اور اس بات پر یقین رکھو کہ برا بھلا جو کچھ پیش آتا ہے وہ نوشتہ تقدیر کے مطابق ہے۔ اس آدمی نے (یہ سن کر) کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا۔ پھر بولا اچھا اب مجھے یہ بتائیے کہ احسان کیا ہے رسول اللہ نے فرمایا احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا کہ تم اس کو دیکھ رہے ہو اور اگر ایسا ممکن نہ ہو (یعنی اتنا حضور قلب میسر نہ ہو سکے) تو پھر (یہ دھیان میں رکھو کہ) وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔ پھر اس آدمی نے عرض کیا قیامت کے بارے میں مجھے بتائیے (کہ کب آئے گی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس بارے میں جواب دینے والا، سوال کرنے والے سے زیادہ نہیں جانتا (یعنی قیامت کے متعلق کہ کب آئے گی، میرا علم تم سے زیادہ نہیں جتنا تم جانتے ہو اتنا ہی مجھ کو معلوم ہے) اس کے بعد اس آدمی نے کہا اچھا اس (قیامت) کی کچھ نشانیاں ہی مجھے بتادیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لونڈی اپنے آقا کو مالک کو جنے گی اور برہنہ پا، برہنہ جسم مفلس و فقیر اور بکریاں چرانے والوں کو تم عالی شان مکانات و عمارت میں فخر و غرور کی زندگی بسر کرتے دیکھو گے۔ حضرت عمر فرماتے ہیں کہ اس کے بعد وہ آدمی چلا گیا اور میں نے (اس کے بارہ میں آپ سے فورًا دریافت نہیں کیا بلکہ) کچھ دیر توقف کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی مجھ سے پوچھا عمر ! جانتے ہو سوالات کرنے والا آدمی کون تھا؟ میں نے عرض کیا اللہ اور رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم) ہی بہتر جانتے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ جبرائیل تھے جو (اس طریقہ سے) تم لوگوں کو تمہارا دین سکھانے آئے تھے۔ (صحیح مسلم) اس روایت کو حضرت ابوہریرہ نے چند الفاظ کے اختلاف و فرق کے ساتھ بیان کیا ہے۔ ان کی روایت کے آخری الفاظ یوں ہیں۔ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت کی نشانیوں کے بارے میں جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ) جب تم برہنہ پابرہنہ جسم اور بہرے گونگے لوگوں کو زمین پر حکمرانی کرتے دیکھو (تو سمجھ لینا کہ قیامت قریب ہے) اور قیامت تو ان پانچ چیزوں میں سے ایک ہے جن کا علم اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں رکھتا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ (اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَه عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ ) 31۔ لقمان : 34) آخر تک پڑھی (جس کا ترجمہ یہ ہے : اللہ ہی کو قیامت کا علم ہے اور بارش کا کہ کب برسائے گا اور وہی (حاملہ) کے پیٹ کی چیزوں کو جانتا ہے ( کہ لڑکا ہے یا لڑکی) اور کوئی آدمی نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کام کرے گا اور کسی آدمی کو نہیں معلوم کہ کس زمین پر اسے موت آئے گی۔ بیشک اللہ ہی جاننے والا اور خبردار ہے)۔ (صحیح البخاری ومسلم)

تشریح
یہ حدیث حدیث جبرائیل کہلاتی ہے کیونکہ یہ حدیث اس سوال و جواب (انٹرویو) پر مشتمل ہے جس کے ذریعہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے بڑی خوبی کے ساتھ اسلام و ایمان کی حقیقت اور دین کی اساسی باتوں کا تعارفی خاکہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے دنیا والوں کے سامنے پیش کرایا ہے۔
حدیث میں سب سے پہلے ایمان اور اسلام کی حقیقت بیان ہوئی ہے جس سے ایمان اور اسلام کے درمیان یہ فرق بھی ثابت ہو جاتا ہے کہ ایمان کا تعلق تو باطن یعنی تصدیق و اعتقاد سے ہے اور اسلام کا تعلق ظاہر یعنی اعمال اور جسمانی اطاعت و فرمانبرداری سے ہے۔ " اللہ کو ماننے" کا مطلب اس بات پر یقین و اعتقاد رکھنا ہے کہ اس کی ذات اور اس کی صفات برحق ہیں، عبادت و پرستش کی سزاوار صرف اسی کی ذات ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں، کوئی اس کا ہمسر و شریک نہیں۔
" فرشتوں کو ماننے" کا مطلب اس بات میں یقین و اعتقاد رکھنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ایک مخلوق " فرشتوں" کے نام سے موجود ہے یہ فرشتے لطیف اور نورانی اجسام ہیں۔ ان کا کام ہر وقت اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کے احکام کی تعمیل کرنا ہے۔
" کتابوں کو ماننے" کا مطلب اس بات پر یقین و اعتقاد رکھنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مختلف ادوار میں اور وقتاً فوقتاً اپنے پیغمبروں پر جو کتابیں نازل فرمائی ہیں اور ان میں چار کتابیں نازل فرمائی ہیں اور جن کی تعداد ایک سو چار ہے۔ وہ سب کلام الٰہی اور احکام و فرامین الٰہی کا مجموعہ ہیں اور ان میں چار کتابیں تو رات، انجیل، زبور اور قرآن مجید سب سے اعلیٰ و افضل ہیں اور پھر ان چاروں میں سب سے اعلیٰ و افضل " قرآن مجید" ہے۔
" رسولوں کا ماننے" کا مطلب اس بات پر یقین اور اعتقاد رکھنا ہے کہ اول الانبیاء حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر خاتم النبیین حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم تک تمام نبی اور رسول اللہ تعالیٰ کے سب سے سچے، سب سے پیارے اور سب سے افضل بندے ہیں جن کو اس نے اپنے احکام و ہدایات دے کر مختلف زمانوں، مختلف قوموں میں مبعوث کیا اور انہوں نے ان خدائی احکام و ہدایات کے تحت دنیا والوں کو ابدی صداقت و نجات کا راستہ دکھانے اور نیکی و بھلائی پھیلانے کا اپنا فریضہ مکمل طور پر ادا کیا اور یہ کہ ان تمام نبیوں اور رسولوں کے سردار پیغمبر آخرالزمان حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جو کسی خاص زمانہ، کسی خاص علاقہ اور کسی خاص قوم کی طرف مبعوث نہیں ہوئے، بلکہ اللہ کا ابدی دین " اسلام" لے کر تمام دنیا اور پوری کائنات کی طرف مبعوث ہوئے اور تا قیامت ان ہی کی نبوت اور انہی کی شریعت جاری و نافذ رہے گی۔
" یوم آخرت یعنی قیامت کے دن" سے مراد وہ عرصہ ہے جو مرنے کے بعد سے قیامت قائم ہونے اور پھر جنت میں داخل ہونے تک پر مشتمل ہے۔ " قیامت کے دن کو ماننے" کا مطلب اس بات پر یقین و اعتقاد رکھنا ہے کہ شریعت اور شارع نے مابعد الموت اور آخرت کے بارے میں جو کچھ بتایا ہے یعنی موت کے بعد پیش آنے والے احوال مثلاً قبر اور برزخ کے احوال ، نفخ صور، قیامت، حشر و نشر، حساب و کتاب اور پھر جزاء و سزا کا فیصلہ اور جنت و دوزخ یہ سب اٹل حقائق ہیں اور جن کا وقوع پذیر ہونا اور پیش آنا لازمی امر ہے۔ اس میں کوئی شک اور شبہ نہیں۔
" تقدیر پر یقین رکھنے" کا مطلب اس حقیقت کو دل سے تسلیم کرنا ہے کہ اس کائنات میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ سب نوشتہ تقدیر کے مطابق اپنے اپنے وقت پر وقوع پذیر ہوتا ہے، آج جو بھی علم واضح ہوتا ہے خواہ وہ نیکی کا ہو یا بدی کا ، خالق کائنات کے علم اور تقدیر میں وہ ازل سے موجود ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ بندہ مجبور و مضطر ہے۔ کاتب تقدیر نے انسان کو " مختار" بنایا ہے۔ یعنی اس کے سامنے نیکی و بدی کے دونوں راستے کھول کر اس کو اختیار دے دیا ہے کہ چاہے وہ نیکی کے راستہ پر چلے، چاہے بدی کے راستہ پر، اور یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ نیکی کے راستہ پر چلو گے تو جزاء و انعام سے نوازے جاؤ گے جو اللہ کا فضل و کرم ہوگا اور اگر بدی کے راستہ پر چلو گے تو سزا اور عذاب کے حقدار بنو گے اور دوزخ میں ڈالے جاؤ گے جو عدل الٰہی کے عین مطابق ہوگا۔
" احسان سے مراد وہ جو ہر (اخلاص) ہے جس سے ایمان و اسلام کی ظاہری صورت یعنی عبادت الٰہی کا صحیح معیار اور حسن قائم ہوتا ہے اور عبادت کا یہی صحیح معیار اور حسن درحقیقت بندے کو معبود کا کامل تقرب اور عبدیت کا حقیقی مقام عطا کرتا ہے۔ بندہ اپنی عبادتوں کو اس جو ہر سے کس طرح آراستہ و مزین کر سکتا ہے؟ اس کا طریقہ یہ بتایا گیا ہے کہ جب تم اپنے پروردگار کی عبادت کرو تو اس طرح کرو جس طرح کوئی نوکر یا غلام اپنے آقا اور مالک کی خدمت اس کو اپنے سامنے دیکھ کر کرتا ہے۔ یہ ایک نفسیاتی نکتہ ہے کہ اگر شفیق آقا نظر کے سامنے ہو اور غلام اس کو دیکھ رہا ہو تو اس کے فرض کی انجام دہی کی کیفیت ہی دوسری ہوتی ہے اس وقت غلام نہ صرف یہ کہ پوری طرح چاق و چوبند مؤدب اور پابند ہوتا ہے بلکہ کام کرنے کا اس کا انداز بھی پوری طرح والہانہ اور مخلصانہ ہوتا ہے اس کے برخلاف اگر آقا نظر کے سامنے نہ ہو تو غلام اگرچہ موفوضہ خدمت انجام ضرور دیتا ہے مگر اس صورت میں نہ تو وہ اتنا چاق وچوبند، مؤدب اور پابند ہوتا ہے اور نہ اس کے کام کرنے کے انداز میں اس قدر والہانہ اور مخلصانہ کیفیت موجود ہوتی ہے۔ پس اسی نکتہ کے پیش نظر اگر بندہ عبادت کے وقت ایسی کیفیت و حالات حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے کہ وہ اللہ کو دیکھ رہا ہے۔ تو خشوع وخضوع اور تضرع کی تمام تر کیفیات خودبخود اس کی عبادت میں پیدا ہوجائیں گی اور اس طرح اس کی عبادت حقیقی عبادت کا درجہ پائے گی اور اس عبادت کا بنیادی مقصد بھی حاصل ہوگا۔ عبادت کے اس مرتبہ کو " حقیقی احسان" کہا گیا ہے جس کو ارباب تصوف" مشاہدہ اور استغراق" سے تعبیر کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ عبادت کا یہ سب سے اونچا مرتبہ و مقام ہے جہاں تک رسائی اتنی آسان نہیں ہے اس لئے نسبتاً آسان طریقہ یہ بتایا گیا ہے کہ جب تم عبادت کرو تو یہ دھیان میں رکھو کہ جس ذات کی عبادت تم کر رہے ہو اس کے سامنے تم کھڑے ہو اور اگرچہ تم اس کو نہیں دیکھ سکتے مگر وہ تمہیں ضرور دیکھ رہا ہے ۔ تمہاری ایک ایک بات پر اس کی نظر ہے اور تمہاری حرکات و سکنات میں سے کچھ بھی اس سے پوشیدہ نہیں ، اس یقین واعتقاد سے بھی تمہاری عبادت میں خشوع وخضوع اور تضرع بڑی حد تک پیدا ہوجائے گا اور عبادت کا حق ادا ہوگا۔ حدیث میں عبادت کی اسی کیفیت کو " احسان" سے تعبیر کیا گیا ہے جو حقیقی احسان یعنی مشاہدہ و استغراق کا ثانوی درجہ ہے۔
حدیث میں ان چاروں فرائض کا بھی ذکر ہے جو ہر مسلمان و مومن پر اس تفصیل کے ساتھ عائد ہوتے ہیں کہ نماز اور روزہ تو وہ دو بدنی فرض عبادتیں ہیں جن کا تعلق ہر عاقل و بالغ مسلمان سے ہے جو بھی آدمی ایمان اور اسلام سے متصف ہے خواہ وہ مرد ہو یا عورت، اس پر فرض ہے کہ وہ پانچوں وقت کی نمازیں پابندی کے ساتھ ادا کرے اور جب رمضان آئے تو اس مہینے کے پورے روزے رکھے۔ باقی دو فرض عبادتیں یعنی زکوۃ اور حج وہ مالی عبادتیں ہیں جن کا تعلق صرف اس مومن و مسلمان سے ہے جو ان کے بقدر مالی استطاعت و حیثیت رکھتا ہو۔ مثلاً زکوۃ اس مسلمان پر فرض ہوگی جو صاحب نصاب ہو۔ اور حج اس مسلمان پر فرض ہوگا جو صاحب نصاب ہی نہیں بلکہ اپنی تمام ضروریات زندگی سے فراغت کے بعد اتنا سرمایہ رکھتا ہو کہ وہ بغیر کسی تنگی و پریشانی کے آمدورفت اور سفر کے دوسرے تمام اخراجات برداشت کر سکتا ہو۔ علاوہ ازیں سفر حج کی پوری مدت کے لئے اہل و عیال اور لواحقین کے تمام ضروری اخراجات کے بقدر رقم یا سامان و اسباب ان کو دے کر جا سکتا ہو۔ زادراہ اور فرضیت حج کی اس طرح کی دوسری شرائط پوری ہوجائیں تو باقی دشواریاں جیسے سفر کا طویل اور پر صعوبت ہونا، درمیان میں سمندر یا دریا کا حائل ہونا وغیرہ، حج کی فرضیت کو ساقط نہیں کر سکتیں۔
قیامت کی کچھ اہم نشانیاں بتائی گئی ہیں کہ جب یہ آثار ظاہر ہونے لگیں اور یہ علامتیں دیکھ لی جائیں تو سمجھ لینا چاہئے کہ اس عالم کے خاتمہ کا وقت قریب آگیا ہے اور یہ دنیا اپنے وجود کے آخری دور سے گزر رہی ہے۔ پہلی علامت یا نشانی تو یہ بتائی گئی ہے کہ " لونڈی اپنے آقا یا مالک کو جنے گی" اس کا ایک مطلب تو غلامی کے زمانہ اور رواج کے سیاق میں لیا جا سکتا ہے کہ لوگ کثرت سے باندیاں رکھیں گے اور ان باندیوں سے اولاد بھی بہت جنوائیں گے، پھر انہی اولاد میں سے جو لوگ بڑے ہو کر مال و جائیداد اور حکومت و طاقت کے مالک بنیں گے وہ لا علمی میں اپنی انہی ماؤں کو جنہوں نے ان کو جنم دیا ہوگا، باندیوں کے طور پر خریدیں گے۔ اور اپنی خدمت میں رکھیں گے۔ اس جملے کا دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جب معاشرے میں جنسی بے راہ روی عام ہو جائے ، مرد و زن تمام اخلاقی اور انسانی پابندیوں کو توڑ کر بے محابہ ناجائز تعلقات پیدا کریں اور اس کے نتیجہ میں ایسے ناجائز بچے کثرت سے پیدا ہونے لگیں جن کو نہ اپنے باپ کی خبر ہو اور نہ اپنی ماں کو جانتے ہوں اور پھر وہی بچے بڑے ہو کر لا علمی میں اپنی ماؤں کو ملازمہ اور نو کر انی بنائیں جنہوں نے ان کو جنا تھا تو سمجھو کہ قیامت قریب آگئی ہے۔ دوسری علامت " برہنہ پا ، برہنہ جسم، مفلس و فقیر اور بکریاں چرانے والوں کا ایوان حکومت اور عالیشان مکانات و محلات کا مالک ہونا " بتایا گیا ہے۔ اس کے مطلب یہ ہے کہ جب تم دیکھو کہ شریف النسل ، عالی خاندان اور مہذب و معزز لوگ انقلاب عالم کا شکار ہو کر غربت و افلاس اور بے روز گاری و پریشانی حالی کے بھنور میں پھنسے ہوئے ہیں، اپنی حیثیت و وقعت کھو چکے ہیں اور معاشرتی و سماجی سطح پر کسی اثر و رسوخ کے حامل نہیں رہ گئے ہیں اور ان کے مقابلے میں وہ لوگ کہ جو کل تک حسب و نسب، شرافت و نجابت، نسل و خاندان اور تہذیب و شائستگی کے اعتبار سے نہایت بے حیثیت و بے وقعت تھے، تعلیمی و اخلاقی طور پر کم تر و پسماندہ سمجھے جاتے تھے۔ غیر منصفانہ سیاست و انقلاب کی بدولت حکومت و اقتدار کے مالک بن بیٹھیں۔ دغا و فریب کے ذریعہ مال و دولت اور بڑی بڑی جائیدادوں پر قابض اور عالی شان مکانات و محلات کے مکین ہوگئے ہیں ، نہ صرف یہ بلکہ طاقت و حکومت ، مال و دولت اور پر عیش زندگی نے ان کو گھمنڈی شیخی خور بنا دیا ہے، حقیقی شرافت و نجابت رکھنے والے غریب و مفلس لوگوں کا وہ مذاق اڑاتے ہیں۔ ان کو ذلیل کرتے ہیں اور ان کی تباہی و رسوائی کے بد سے بدتر حالات پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تو سمجھنا کہ اب اس دنیا کے خاتمہ کا وقت قریب آگیا ہے۔ اسی تفصیل کو علامہ طیبی نے چند جملوں میں اس طرح بیان کیا ہے کہ قیامت کی علامتیں بتانے والے حدیث کے یہ دونوں جملے دراصل انقلاب حالات سے کنایہ ہیں یعنی جب اتنا انقلاب رونما ہوجائے کہ اپنی اولاد اپنا آقا اور حاکم بن جائے۔ اور شرفاء کی جگہ کمتر و ذلیل لے لیں تو سمجھ لینا چاہیے کہ اب تمام عالم پر ایک عظیم انقلاب کا وقت قریب آگیا ہے جسے قیامت کہا جاتا ہے۔
خلاصہ کلام یہ کہ : اس حدیث میں شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کی اساس اور دین کی بنیادی باتوں کو بتایا گیا ہے یعنی " ایمان" کی تعریف بیان کی گئی ہے کہ یہ ان عقائد و نظریات سے تعبیر ہے جن کو جاننے اور ماننے کے بعد کوئی آدمی دائرہ اسلام میں داخل ہوتا ہے اور مومن بنتا ہے " اسلام" کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ اس سے وہ عملی ذمہ داریاں (فرائض) مراد ہیں جو مومن پر عائد ہوتی ہیں اور ان عملی ذمہ داریوں یعنی فرائض کی انجام دہی ہی پیرو اسلام یعنی مسلمان بناتی ہے اس کے بعد احسان کی وضاحت کی گئی جس کو اخلاص سے (یا تصوف سے بھی) تعبیر کیا جاسکتا ہے یہ اس کیفیت کا نام ہے۔ جو صحیح عقائد و نظریات سے وابستگی اور شریعت کی اتباع و فرمانبرداری کے بعد توجہ الی اللہ کے ذریعہ پیدا ہوتی ہے۔ اور بندے کو اپنے معبود کا تقرب عطا کرتی ہے۔ درحقیقت یہ تینوں چیزیں ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں، اللہ تعالیٰ کا قرب اور اس کی خوشنودی اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتی جب تک اللہ اور اللہ کے رسول کے جاری و نافذ کئے ہوئے احکام و ہدایات پر پوری طرح عمل نہ کیا جائے اور " عمل " اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک اس وقت تک " حسن قبول" کا درجہ نہیں پا سکتے جب تک اللہ کی طرف کامل توجہ نہ ہو اور پورے داخلی و خارجی وجود پر خوف وخشیت الہٰی اور حضور قلب کی کیفیت طاری نہ ہو اور ان دونوں کا اس وقت تک کوئی اعتبار نہیں ہوگا جب تک فکر و عقیدہ صحیح نہ ہو۔ اور دل و دماغ ایمان و یقین سے روشن نہ ہوں۔ پس کامل مومن یا کامل مسلمان وہی آدمی مانا جائے گا جس کا دل و دماغ میں ایمان یعنی صحیح اسلامی عقائد و نظریات کا نور موجود ہو، پھر وہ ان فرائض کو پوری طرح ادا کرے اور ان احکام و ہدایات کی کامل اطاعت کرے جو اللہ نے اپنے رسول کے ذریعہ جاری و نافذ کئے اور پھر ریاضیت و مجاہد یعنی ذکر و شغل اور اوراد و ظائف کے ذریعہ اخلاص، توجہ الی اللہ اور رضاء مولیٰ کے حصول کی جدوجہد کرے جس سے ایمان و اسلام میں حسن و کمال اور بلند قدری ملتی ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں