علم اور اس کی فضیلت کا بیان
راوی:
وَعَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم لَا حَسَدَ اِلَّا فِی اثْنَےْنِ رَجُلٌ اَتَاہُ اللّٰہُ مَالًا فَسَلَّطَہُ عَلٰی ھَلَکَتِہٖ فِی الْحَقِّ وَرَجُلٌ اَتَاہُ اللّٰہُ الْحِکْمَۃَ فَھُوَ ےَقْضِیْ بِھَا وَےُعَلِّمُھَا۔(صحیح البخاری و صحیح مسلم)
" اور حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ دو آدمیوں کے بارے میں حسد کرنا ٹھیک ہے ایک تو وہ آدمی جسے اللہ نے مال دیا اور پھر اسے راہ حق میں خرچ کرنے کی توفیق عنایت فرمائی۔ دوسرا وہ آدمی جسے اللہ نے علم دیا چنانچہ وہ اس علم کے مطابق حکم کرتا اور دوسروں کو سکھاتا ہے۔" (صحیح البخاری و صحیح مسلم )
تشریح :
حسد اسے فرماتے ہیں کہ " کسی دوسرے کے پاس کوئی نعمت دیکھ کر یہ آرزو کی جائے کہ یہ نعمت میرے پاس آجائے اور اس کے پاس سے ختم ہو جائے۔ " ظاہر ہے کہ یہ ایک بہت بری خصلت اور انتہائی ذلت نفس کی بات ہے۔ اسلام جو اخلاق، پاکیزگی کا سب سے بڑا علمبردار ہے اس غیر اخلاقی اور ذلیل خصلت کو پسند نہیں کرتا اور اس سے بچنے کا حکم دیتا ہے ۔ حسد کے مقابلہ میں غِبطہ ہے۔ غِبط اسے فرماتے ہیں کہ کسی کے پاس کوئی نعمت دیکھ کر یہ آرزو کی جائے کہ جیسی نعمت اس کے پاس ہے اللہ اس نعمت سے مجھے بھی سر فراز فرمائے۔ شریعت اس کو جائز قرار دیتی ہے مگر یہ بھی اچھی باتوں مثلاً نیک اخلاق و عادات، بہترین خصائل اور فضل و کمال کے بارے میں جائز ہے چنانچہ اس حدیث میں جس حسد کے بارے میں فرمایا گیا ہے وہ غِطبہ ہے۔