علم اور اس کی فضیلت کا بیان
راوی:
عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عَمْرٍوص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم بَلِّغُوْا عَنِّیْ وَلَوْ اٰےَۃً وَّحَدِّثُوْا عَنْ بَنِیْ اِسْرَائِےْلَ وَ لَا حَرَجَ وَ مَنْ کَذَبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّدًا فَلْےَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ ۔ (رواہ بخاری)
" حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ " میری طرف سے پہنچاؤ اگرچہ ایک ہی آیت ہو۔ اور بنی اسرائیل سے جو قصے سنو لوگوں کے سامنے بیان کرو یہ گناہ نہیں ہے اور جو آدمی قصدًا میری طرف جھوٹ بات منسوب کرے اسے چاہئے کہ وہ اپنا ٹھکانہ دوزخ میں ڈھونڈ لے۔" (صحیح البخاری)
تشریح :
آیت سے مراد وہ احادیث ہے جو بظاہر چھوٹی چھوٹی ہیں لیکن افادیت کے اعتبار سے علوم و معارف کر بحر بیکراں اپنے اندر سموئے ہوئے ہوتی ہیں جیسے ایک چھوٹی سی حدیث ہے کہ الحدیث (من صمت نجا) یعنی جو خاموش رہا وہ نجات پا گیا۔ یا اسی طرح دوسری مختصر مگر جامع احادیث ۔ گویا اس جملہ کا مطلب یہ ہوا کہ اگرچہ تم میری کسی ایسی حدیث کو پاؤ جو بااعتبار جملہ و الفاظ کے بہت چھوٹی اور مختصر ہو مگر اس کو دوسروں تک ضرور پہنچاؤ اور اس کی افادیت سے دوسروں کو روشناس کراؤ۔ علماء لکھتے ہیں کہ اس حدیث کا اصل مقصد علم کو پھیلانے اور دوسروں کو علم کی روشنی سے منوّر کرنے کی ترغیب دلانا ہے کہ جہاں تک ہو سکے علم کے پھیلانے اور دین کی بات کو پہنچانے میں سعی و کوشش کرنی چاہئے۔ ہوسکتا ہے کہ تم جس کو دوسروں تک پہنچا رہے ہو اگرچہ وہ بہت مختصر ہے مگر کیا تعجب کہ اسی سے اس کی دنیا بھی سنور جائے اور دین بھی بن جائے اور وہ راہ ہدایت کو پالے جس کے نتیجے میں نہ صرف یہ کہ ایک آدمی کی ہدایت ہوگی اور وہ راہ راست پر لگ جائے گا بلکہ اس کی وجہ سے تمہیں بھی اجر ملے گا اور بے شمار حسنات سے نوازے جاؤ گے۔
حدیث میں دوسری بات یہ بتائی گئی ہے کہ اگر بنی اسرائیل سے کوئی قصہ سنو یا تمہیں ان سے کوئی واقعہ معلوم ہو تو تم اس کو لوگوں سے بیان کر سکتے ہو مگر ان کے احکام وغیرہ کو نقل کرنے کی اجازت نہیں ہے جیسا کہ گذشتہ احادیث میں گزر چکا ہے ۔ اس لئے کہ کسی واقعہ یا قصہ کو محض خبر کے طور پر بیان کر دینا شرعی امور میں کوئی نقصان پیدا نہیں کرتا مگر ان کے احکام کو نقل کرنا یا ان کی تبلیغ کرنا شریعت محمدی کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے کیونکہ جب اس دنیا میں شریعت محمدی کا نفاذ ہوگیا ہے تو اب تمام دوسری شریعتیں منسوخ اور کالعدم قرار دے دی گئی ہیں۔ لہٰذا شریعت محمدی کو چھوڑ کو دوسری شریعت کے احکام و اعمال کی تبلیغ کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اخر حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کسی غلط بات کو منسوب کرنے پر نہایت سخت الفاظ میں زجر و توبیح فرمائی گئی ہے۔
چنانچہ فرمایا گیا ہے کہ جو آدمی میری طرف کسی غلط بات کا انتساب کرتا ہے اور مجھ پر بہتان باندھتا ہے تو اسے چاہئے کہ وہ جہنم کی آگ میں جلنے کے لئے تیار ہو جائے۔ اس لئے کہ ایسا بد بخت جو دنیا کی سب سے بڑے صادق و مصدوق ہستی پر بہتان باندھتا ہے وہ اسی سزا کا مستحق ہے کہ اسے جہنم کے شعلوں کے حوالے کر دیا جائے۔
اس بارہ میں جہاں تک مسئلہ کا تعلق ہے علماء متفقہ طور پر یہ لکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کی طرف کسی ایسی بات یا ایسے عمل کی نسبت کرنا جو واقعہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے حرام اور گناہ کبیرہ ہے اور ایسا کا ذب انسان اللہ کے سخت عذاب میں گرفتار کیا جائے گا اور بعض علماء مثلاً امام محمد جوینی رحمہ اللہ تعالیٰ نے تو اس جرم کو اتنا قابل نفرت اور سخت خیال کیا ہے کہ وہ ایسے آدمی کے بارے میں کفر کا حکم لگاتے ہیں۔
حدیث " من کذب علی متعمدا فلیتبوا مقعدہ من النار" یعنی جو آدمی قصدا میری طرف جھوٹ بات کی نسبت کرے اسے چاہئے کہ وہ اپنا ٹھکانا دوزخ میں تلاش کرے۔" کہ بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ بڑے پایہ اور اونچے درجہ کی حدیث ہے اور اس کا شمار متواترات میں ہوتا ہے بلکہ دوسری متواتر حدیثیں اس کے مرتبہ کو نہیں پہنچتی ہیں۔ اس لئے کہ اس حدیث کو صحابہ کی ایک بہت بڑی جماعت نقل کرتی ہے چنانچہ بعض محدثین نے لکھا ہے کہ اس حدیث کو باسٹھ صحابہ کرامن رضوان اللہ علیہم اجمعین نے روایت کیا ہے جن میں عشرہ مبشرہ بھی شامل ہیں۔