کتاب اور سنت کو مضبوطی سے پکڑنے کا بیان
راوی:
وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسِ قَالَ: مَنْ تَعَلَّمَ کِتَابَ اﷲِ ثُمَّ اتَّبَعَ مَافِیْہِ ھَدَاہُ اﷲُ مِنَ الضَّلَالَۃِ فِی الدُّنْیَا وَوَقَاہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ سُوْ ۤءَ الْحِسَابِ وَفِیْ رِوَایَۃِ ، قَالَ : مَنِ اقْتَدَی بِکِتَابِ اﷲِ لَایَضِلُّ فِی الدُّنْیَا وَلَا یَشْقٰی فِی الْاٰخِرَۃِ ثُمَّ تَلَا ھٰذِہِ الْآیَۃَ(فَمَنِ اتَّبَعَ ھُدَایَ فَلَا یَضِلُّ وَلَا یَشْقٰی)) (رواہ رزین)
اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ جس شخص نے کتاب اللہ کا علم حاصل کیا اور پھر اس چیز کی پیروی کی جو اس (کتاب اللہ ) کے اندر ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو دنیا میں گمراہی سے ہٹا کر راہ ہدایت پر لگائے (یعنی اس کو ہدایت کے راستہ پر ثابت قدم رکھے گا اور گمراہی سے بچالے گا) اور قیامت کے دن اس کو برے حساب سے بچالے گا ( یعنی اس سے مواخذہ نہیں ہوگا) اور ایک روایت میں ہے کہ جس شخص نے کتاب اللہ کی پیروی کی تو نہ وہ دنیا میں گمراہ ہوگا اور نہ آخرت میں بدبخت ہوگا (یعنی اسے عذاب نہیں دیا جائے گا) اس کے بعد عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے یہ آیت تلاوت فرمائی آیت (فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقٰي) 20۔طہ : 123) ترجمہ : جس آدمی نے میری ہدایت (یعنی قرآن) کی پیروی کی نہ وہ دنیا میں گمراہ ہوگا اور نہ (آخرت میں) بدبخت ہوگا۔" (رزین)
تشریح :
چونکہ قرآن کریم کا پڑھنا باعث سعادت اور اس پر عمل کرنا ذریعہ نجات ہے اس لئے جو آدمی قرآن کریم کو سمجھ کر پڑھے اور قرآن کو سمجھنے کی جو شرائط ہیں ان کے مطابق اس کے علوم و معارف کو حاصل کرے اور پھر قرآن کریم نے جو احکام بتائے ہیں ان پر عمل کرے اور ہدایت کا جو راستہ متعین کر دیا ہے اس پر چلتا رہے تو اس کے لئے دین و دنیا دونوں جگہ سعادت و رحمت کے دروازے کھول دیئے جائیں گے۔ دنیا میں اس پر اللہ کی جانب سے رحمت ہوگی کہ وہ چونکہ قرآن کو اپنا راہبر بنا رکھے گا اس لئے گناہ و معصیت سے بچتا رہے گا برائی کے راستے کو چھوڑ دے گا جس کا نتیجہ آخرت میں یہ ہوگا کہ وہاں اس پر اللہ کی بے شمار رحمتوں کا سایہ ہوگا نہ تو حساب و کتاب کی سختی ہوگی اور نہ عذاب میں مبتلا ہوگا اور یہی بندہ کے حق میں سب سے بڑی فلاح و سعادت ہے۔