کتاب اور سنت کو مضبوطی سے پکڑنے کا بیان
راوی:
وَعَنْ اَبِیْ اُمَامَۃَ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم ((مَاضَلَّ قَوْمً بَعْدَ ھُدًی کَانُوْا عَلَیْہِ اِلَّا اُوْتُوا الْجَدَلَ)) ثُمَّ قَرَارَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم ھٰذِہٖ الْاٰیَۃ ((مَاضَرَبُوْہ، لَکَ اِلَّا جَدَ لَابَلْ ھُمْ قَوْمٌ خَصِمُوْنَ)) (رواہ الجامع ترمذی و ابن ماجۃ)
" اور حضرت ابوامامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہدایت پانے اور ہدایت پر قائم رہنے کے بعد کوئی قوم گمراہ نہیں ہوئی مگر اس وقت جب کہ اس میں جھگڑا پیدا ہوا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی آیت (مَا ضَرَبُوْهُ لَكَ اِلَّا جَدَلًا بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُوْنَ ) 43۔ الزخرف : 58) (قرآن) ترجمہ : وہ تمہارے لئے نہیں بیان کرتے مثال مگر جھگڑنے کے لئے بلکہ وہ جھگڑالو قوم ہی ہے۔" (مسند احمد بن حنبل، جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ)
تشریح :
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دینی معاملات اور شرعی مسائل میں جھگڑنا نہیں چاہئے اور نہ ہر کس وناکس کو ان میں اپنی عقل کے تیر چلانے چاہیں کیونکہ زمانہ ما سبق میں ہدایت یافتہ اقوام کی گمراہی کا بیشتر سبب یہی ہوتا تھا کہ لوگ دینی معاملات میں جھگڑتے رہتے تھے اور یہ حرکت علماء سوء اور نفسانی خواہشات کے تابع لوگ کیا کرتے تھے اس سے ان کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ دینی معاملات میں تفرقہ پیدا ہو اور لوگ آپس میں لرنے جھگڑنے لگیں تاکہ غلط عقائد اور باطل مذاہب کو فروغ دیں اور حق کی بنیادوں کو اکھاڑ پھینکیں۔
مشرکین کے اس غلط نظریہ کے رد میں آیت مذکورہ آیت (ماضربوہ لک ) الایۃ نازل ہوئی جس کا مطلب یہ ہے کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم یہ مشرک لوگ اس آیت کو سن کر تم سے جو بحث کرتے ہیں اور اپنی طرف سے غلط معنی مراد لے رہے ہیں وہ محض ان کی ہٹ دھرمی اور ضد ہے اور یہ مخاصمت و مجادلت کے طور پر ایسی غلط بات کہہ رہے ہیں حالانکہ یہ صاحب زبان ہیں اور عربی زبان کے اصول و قواعد انہیں معلوم ہیں اور وہ بھی جانتے ہیں کہ ماتعبدوں سے پتھر وغیرہ کے بت مراد ہیں اس لئے کہ لفظ ماخود اس پردال ہے کہ یہ حکم غیر ذوی العقول معبودوں یعنی پتھروں وغیرہ کے بتوں کے بارہ میں ہے نہ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور اللہ کے دیگر نیک بندے اس میں شامل ہیں۔