مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ کتاب اور سنت کو مضبوطی سے پکڑنے کا بیان ۔ حدیث 173

کتاب اور سنت کو مضبوطی سے پکڑنے کا بیان

راوی:

وَعَنْ اَبِی سَعِیْدِنِ الْخُدْرِیِّ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم((مَنْ اَکَلَ طَیِّبًا وَعَمِلَ فِی سُنَّۃِ وَاٰمِنَ النَّاسُ بَوَائِقَہ، دَخَلَ الْجَنَّۃَ)) فَقَالَ رَجُلٌ یَا رَسُوْلَ اﷲِ اِنَّ ھٰذَا لْیَوْمَ لَکَثِیْرٌ فِی النَّاسِ؟ قَالَ: وَسَیَکُوْنَ فِی قُرُوْنِ بَعْدِی۔(رواہ الجامع ترمذی)

" اور حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس آدمی نے حلال (رزق) کھایا، سنت کے طریقہ پر عمل کیا اور اس کی زیادتیوں سے لوگ امن میں رہے تو وہ جنت میں داخل ہوگا ایک آدمی نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ایسے لوگ تو آج کل بہت ہیں ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اور میرے بعد بھی ایسے لوگ ہوں گے۔ " (جامع ترمذی )

تشریح :
حلال رزق کا مطلب یہ ہے کہ خواہ تجارت ہو یا ملازمت یا کوئی دوسرا ذریعہ معاش، ہر جگہ ایماندار و دیانت کے دامن کو پکڑے رہے اور شریعت کی حدود سے تجاوز نہ کرے نیز ایسی کوئی صورت اختیار نہ کرے جس سے اس کی کمائی حرام ہو جائے جیسے اگر کوئی آدمی تجارت میں خرید و فروخت کے وقت میں ایسے طریقے اختیار کرتا ہے جو شریعت کی نظر میں جائز نہیں ہیں تو اس کا کمایا ہوا مال پاک و حلال نہیں رہے گا۔ ہاں اگر اس کا طرز عمل خلاف شریعت نہیں ہوتا تو اس کی کمائی حلال ہوگی۔
شرعی نقطہ نظر سے تجارت میں حلال کمائی کے لئے یہ شرط ہے کہ کسی مال کو فروخت کرتے وقت نہ تو عقد بیع سے پہلے نہ عقد بیع کے وقت اور عقد بیع کے بعد کوئی ایسی شکل اختیار کرے جو شرعی طور پر مفسد بیع ہو تو اس کا کمایا ہوا مال حلال و طیب ہوگا اور اگر اس کے برخلاف عمل کیا تو اس کی کمائی حلال نہیں ہوگی۔ مثلاً کسی تاجر نے کسی چیز کو فروخت کرنے کا ارادہ کیا اور عقد بیع سے پہلے دھوکہ اور فریب دینے کا خیال کیا۔ جیسے جس چیز کو فروخت کر رہا ہے اس میں کوئی عیب ہے لیکن اس نے اس کو نہ ظاہر کرنے کا ارادہ کیا تو اگرچہ عقد بیع کے وقت ایجاب و قبول شرعی طور پر ہوا ہو مگر اس کی اس فاسد نیت کی وجہ سے اس کا کمایا ہوا مال حلال نہیں ہوگا۔ یا اسی طرح فروخت کے وقت جب کہ عقد بیع واقع ہو رہا تھا یا عقد بیع کے بعد تاجر نے کوئی فاسد شرط لگا دی جو جائز نہیں ہے تو اس صورت میں بھی اس کا کمایا ہوا مال حلال نہیں ہوگا جیسے دکاندار نے کسی چیز کو فروخت کیا اور خریدار سے کہا کہ بیع ہوگی لیکن شرط یہ ہے کہ ایک بوتل شراب مجھے دیا کرنا تو چونکہ یہ شرعی طور پر جائز نہیں ہے اس لئے اس کا حاصل کیا ہوا مال حلال نہیں ہوگا۔
بہر حال مطلب یہ ہے کہ خرید و فروخت کے سلسلہ میں ان تینوں اوقات میں ایسا طریقہ اختیار نہ کرنا چاہئے جو خلاف شریعت ہوتا کہ اس کا کمایا ہوا مال حلال رہے۔ پھر یہ تجارت ہی پر موقوف نہیں ہے۔ بلکہ اسی طرح ملازمت اور زراعت وغیرہ کا معاملہ بھی ہے کہ وہاں ایسے طریقے اختیار نہ کئے جائیں جو حلال رزق کے حصول میں رکاوٹ بنیں۔
بہرحال مطلب یہ ہے کہ خرید و فروخت کے سلسلہ میں ان تینوں اوقات میں ایسا طریقہ اختیار نہ کرنا چاہئے جو خلاف شریعت ہو تاکہ اس کا کمایا ہوا مال حلال رہے۔ پھر یہ تجارت ہی پر موقوف نہیں ہے۔ بلکہ اسی طرح ملازمت اور زراعت وغیرہ کا معاملہ بھی ہے کہ وہاں ایسے طریقے اختیار نہ کئے جائیں جو حلال رزق کے حصول میں رکاوٹ بنیں۔
حدیث میں دخول بہشت کے لئے دوسرا وصف یہ قرار دیا گیا ہے کہ سنت کی پیروی پوری پوری ہو یعنی جو بھی کام کیا جائے یا جو بھی بات کہی جائے وہ سنت نبوی کے مطابق ہو۔ گویا انسانی زندگی کا کوئی بھی پہلو ہو خواہ وہ عبادات کا ہو یا معاملات یا معاشرت کا، سب میں سنت نبوی کی جھلک اور اتباع رسول کا جذبہ موجود ہو۔
چنانچہ جن اعمال کے بارہ میں احادیث وارد ہوئی ہیں ان کے مطابق ہی عمل کیا جائے یہاں تک کہ بیت الخلاء جانے اور راستہ کو کسی تکلیف دہ چیز سے صاف کرنے کے بارہ میں جو احادیث وارد ہوئی ہیں یا جو سنت منقول ہے اس پر عمل کرے اور ان کے احکام کو بجا لائے۔
آخر حدیث میں صحابی کے قول کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے زمانے میں تو ایسے لوگ بکثرت موجود ہیں جو مذکورہ اوصاف سے متّصف ہونے کی وجہ سے اس خوشخبری کے مستحق ہیں لیکن ہمارے بعد ایسے لوگ پائے جائیں گے یا نہیں؟ یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
اس کے جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہمارے بعد بھی ایسے لوگ ہوں گے یعنی اس امت سے خیر و بھلائی بالکل ختم نہیں ہو جائے گی۔ ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ آخر زمانہ میں جب کہ فتنہ و فساد کا دور دورہ ہوگا، ایسے لوگوں کی کمی ہو جائے گی لیکن پھر بھی کچھ نہ کچھ ایسے اللہ والے لوگ اس دنیا میں رہیں گے جو حدیث و سنت کے طریقہ پر اپنی زندگی گزاریں گے اور ایمان و دین پر پورے یقین کے ساتھ قائم و دائم رہیں گے۔

یہ حدیث شیئر کریں