کتاب اور سنت کو مضبوطی سے پکڑنے کا بیان
راوی:
وَعَنْہُ قَال: صَلَّی بِنَا رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم ذَاتَ یَوْمِ ثُمَّ اَقْبَلَ عَلَیْنَا بِوَجْھِہٖ فَوْعَظَنَا مَوْعِظَۃً بَلِیْغَۃً' ذَرَفَتْ مِنْھَا الْعُیُوْنُ، وَوَجِلَتْ مِنْھَا الْقُلُوْبُ فَقَالَ رَجُلٌ یَا رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم کَأَنَّ ھٰذِہٖ مُوْعِظَۃً مُوَدِّعِ فَاَوْصِنَا فَقَالَ: ((اُوْصِیْکُمْ بِتَقْوَی اﷲِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ وَاِنْ کَانَ عَبْدًا حَبَشِیًّا فَاِنَّہ، مَنْ یَّعْشِ مِنْکُمْ بَعْدِیْ فَسَیَرٰی اِخْتِلَافًا کَثِیْرًا فَعَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ وَسُنَّۃِ الْخُلَفَآءِ الرَّاشِدِیْنِ الْمَھْدِیِّیْنَ تَمَسَّکُوْا بِھَا وَعَضُّوْا عَلَیْھَا بِالنَّوَا جِذِ وَاِیَّاکُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْاُمُوْرِ فَاِنَّ کُلَّ مُحْدَثَۃِ بِدْعَۃٌ ضَلَالَۃٌ))رَوَاہُ اَحْمَدُ وَاَبُوْدَاؤدَ وَالتِّرْمِذِیُّ وَابْنُ مَاجَۃَ اِلَّا أَنَّھُمَا لَمْ یَذْکُرَا الصَّلاَۃَ۔
" اور حضرت عرباض بن ساریہ ( حضرت عرباض ابن ساریہ کی کنیت ابونجیح ہے اور سلمی ہیں آپ اہل صفہ سے تھے ۔ ان سے تابعین کی ایک بڑی جماعت روایت حدیث کرتی ہے ٧٥ھ ہیں آپ کا انتقال ہوا ہے۔) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی ہماری طرف متوجہ ہو کر بیٹھ گئے اور ہم کو نہایت موثر انداز میں نصیحت کی کہ ہماری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور دلوں میں خوف پیدا ہو گیا، ایک آدمی نے عرض کیا یا رسول اللہ !(ایسا معلوم ہوتا ہے کہ) گویا نصیحت کرنے والے کی یہ (آخری نصیحت ہے) لہٰذا ہم کو وصیت فرما دیجئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تم کو نصیحت کرتا ہوں کہ اللہ سے ڈرتے رہو، اور تم کو مسلمان سردار جو کہے سننے اور بجا لانے کی وصیت کرتا ہوں اگرچہ وہ (سردار) حبشی غلام ہو تم میں سے جو آدمی میرے بعد زندہ رہے گا وہ اختلاف بھی دیکھے گا ایسی حالت میں تم پر لازم ہے کہ میرے اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کے طریقہ کو لازم جانو اور اسی طریقہ پر بھروسہ رکھو اور اس کو دانتوں سے مضبوط پکڑے رہو اور تم (دین میں) نئی نئی باتیں پیدا کرنے سے بچو اس لئے کہ ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔ (مسند احمد بن حنبل، سنن ابوداؤد، جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ) مگر اس روایت میں جامع ترمذی اور سنن ابن ماجہ نے نماز پڑھنے کا ذکر نہیں کیا ہے یعنی ان کی رعایت میں حدیث کے الفاظ صلی بنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مذکور نہیں ہیں بلکہ حدیث وعظنا موعظۃ سے شروع ہوتی ہے۔"
تشریح :
راوی کے قول کَأَنَّ ھٰذِہ مُوَعِظَۃُ مُوْدِّعِ (گویا کہ رخصت کرنے والے کی آخری نصیحت ہے) کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح کوئی آدمی کوچ کرنے والا ہوتا ہے تو بر وقت رخصت وعظ و نصیحت کے بیان میں کمال کوشش کرتا ہے تاکہ کوئی پہلو تشنہ نہ ره جائے اسی طرح آپ صلی الله علیه وسلم نے بھی اس وقت اس انداز سے وعظ و نصیحت بیان
فرمائی ہے گویا آپ کا وقت رحلت قریب ہے لهٰذا اس سے پہلے آپ اس دنیا سے تشریف لے جائیں ہمیں ایسی وصیتیں فرما دیجئے جو دین و دنیا دونوں جگہ ہمارے لئے رہبر ہوں۔
اس حدیث سے معلوم ہوا ہے کہ مسلمان سردار و حاکم کی اطاعت و فرمانبرداری ہر حال میں ضروری، الاّ یہ کہ خلاف شریعت باتوں کا حکم نہ دے چنانچہ بطور مبالغہ فرمایا کہ اگرچہ مسلمان سرادر حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو اس کی اطاعت و فرمانبرداری ضروری ہے۔ دانتوں سے پکرنے کا مطلب یہ ہے کہ کسی چیز کو پورے عزم و یقین اور پختگی کے ساتھ اپنے اوپر لازم کر لیا جائے۔