کتاب اور سنت کو مضبوطی سے پکڑنے کا بیان
راوی:
وَعَنِ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِیَۃَ قَالَ: قَامَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ ((اَیَحْسِبُ اَحَدُکُمْ مُتَّکِئًا عَلٰی اَرِیْکَتِہٖ یَظُنُّ اَنَّ اﷲَ لَمْ یُحَرِّمْ شَیْئًا اِلَّا مَافِی ھٰذَا الْقُرْاٰن؟ اَلَا اوَاِنِّیْ وَاﷲِ قَدْاَمَرْتُ وَوَعَظْتُ وَنَھَیْبُ عَنْ اَشْیَآءَ اِنَّھَا لَمِثْلُ الْقُرْاٰنِ اَوْ اَکْثَرُ' وَاِنَّ اﷲَ لَمْ یُحِلَّ لَکُمْ اَنْ تَدْخُلُوْ ابُیُوْتَ اَھْلِ لْکِتَابِ اِلَّا بِاِذْنِ وَلَا ضَرْبَ نِسَآءِ ھِمْ وَلَا اَکْلَ ثِمَارِھِمِ اِذَا اَعْطُوْ کُمُ الَّذِیْ عَلَیْھِمْ)) رَوَاہُ اَبُوْدَاؤدَ وَ فِی اِسْنَادِہٖ اَشْعَثُ بْنُ شُعْبَۃَ الْمَصِیْصِیُّ قَدْ تُکُلِّمَ فِیْہِ۔
" اور حضرت عرباض بن ساریہ رضی الله تعالیٰ عنه(حضرت عرباض بن ساریه رضی الله تعالیٰ عنه کی کنیت او نجیح هے اور سلمی هیں آپ اهل صفه سے تھے ۔ ان سے تابعین کی ایک بڑی جماعت روایت حدیث کرتی هے ۷۵ه میں آپ کا انتقال هوا هے ۔) راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (خطبہ کے لئے ) کھڑے ہوئے اور فرمایا کیا تم میں سے کوئی آدمی اپنے چھپر کھٹ پر تکیہ لگائے ہوئے یہ خیال رکھتا ہے کہ اللہ نے وہی چیزیں حرام کی ہیں جو قرآن میں ذکر کی گئی ہیں، خبردار ! اللہ کی قسم ! بلاشک میں نے حکم دیا، میں نے نصیحت کی اور میں نے منع کیا چند چیزوں سے جو مثل قرآن کے ہیں بلکہ زیادہ ہیں ، بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے یہ حلال نہیں کیا کہ تم اہل کتاب کے گھروں میں اجازت حاصل کئے بغیر چلے جاؤ اور نہ تمہارے لئے ان عورتوں کو مارنا حلال ہے اور نہ تمہارے لئے ان کے پھلوں کا کھانا جائز کیا ہے جب کہ وہ اپنا مطالبہ ادا کر دیں جو ان کے ذمہ تھا۔ (ابوداؤد) اور ان کی سند میں اشعث بن شعبہ مصیصی ہیں جن کے بارے میں کلام کیا گیا ہے وہ ثقہ ہیں یا نہیں؟۔"
تشریح :
ان اللہ لم یحل سے آخر تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند احکام دیئے ہیں وہ یہ کہ اہل کتاب کے گھروں میں ان کی اجازت کے بغیر داخل ہو کر ان کو نہ ستاؤ اور نہ ان کو پریشان کرو اور نہ ان کے گھر والوں کو ستاؤ اور نہ تکلیف پہنچاؤ اسی طرح ان کے مال کو نہ لو جب کہ وہ جزیہ ادا کریں۔
ارشاد کا مقصد یہ ہے کہ یہ احکام قرآن میں مذکور نہیں ہیں بلکہ میں نے دیئے ہیں اور ان چیزوں سے میں نے منع کیا ہے اور ان پر عمل کرنا واجب و ضروری ہے۔ ان احکام سے یہ کہہ کر اعراض نہیں کیا جاسکتا کہ یہ قرآن میں چونکه موجود نهیں هیں اس لئے واجب العمل بھی نهیں هیں ۔
آخر روایت میں لفظ رواہ کے بعد مشکوۃ کے اصل نسخہ میں جگہ خالی ہے اس لئے کہ صاحب مشکوٰۃ کو اس حدیث کے راوی کا علم نہ ہوا ہوگا۔ لیکن بعد میں میرک شاہ نے مذکورہ عبارت لکھ دی ہے۔