مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ کتاب اور سنت کو مضبوطی سے پکڑنے کا بیان ۔ حدیث 158

کتاب اور سنت کو مضبوطی سے پکڑنے کا بیان

راوی:

وَعَنْ رَبِیْعَۃَ الْجُرَشِیِّ رَضِیَ اﷲُ عَنْہُ قَالَ اُتِیَ نَبِیُّ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم فَقِیْلَ لَہ، لِتَنَمْ عَیْنَکَ وَ لْتَسْمَعْ اُذُنُکَ وَلِیَعْقِلْ قَلْبُکَ قَالَ فَنَامَتْ عَیْنَایَ وَسَمِعَتْ اُذُنَایَ وَعَقَلَ قَلْبِیْ قَالَ فَقِیْلَ لِی سَیِّدٌ بَنٰی دَارًا فَصَنَعَ فِیْھَا مَأْدُبَۃً وَّاَرْسَلَ دَاعِیًا فَمَنْ اَجَابَ الدَّاعِیَ دَخَلَ الدَّارَوَاَکَلَ مِنَ الْمَأْدُبَۃِ وَرَضِیَ عَنْہُ السَّیِّدُ وَمَنْ لَمْ یُجِبِ الدَّاعِیَ لَمْ یَدْخُلِ الدَّارِ وَلَمْ یَاْکُلْ مِنَ الْمَأْدُبَۃِ وَسَخَطَ عَلَیْہِ السَّیَّدُ قَالَ فَاﷲُ السَّیِّدُ ، وَمُحَمَّدٌ الدَّاعِیْ وَالدَّارُ الْاِ سْلَامُ ، وَالْمَأْدُبَۃُ اَلْجَنَّۃُ۔ (رواہ الدارمی)

" حضرت ربیعہ الجرشی ( آپ کا اسم گرامی ربیعۃ بن التمار ہے کچھ لوگوں نے انہیں ربیعہ بن عمرو بھی لکھا ہے ان کے صحابی ہونے میں اختلاف ہے خرج راہط کے دن انتقال ہوا تھا۔) راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں فرشتے دکھلائے گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا (یعنی فرشتوں نے کہا) چاہئے کہ آپ کی آنکھیں سوئیں،
آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم) کے کان سنیں اور آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم) کا دل سمجھے، آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا: تو میری آنکھیں سوئیں، میرے کانوں نے سنا اور میرے دل نے سمجھا، پھر آپ نے فرمایا کہ مجھ سے کہا گیا (یعنی مثال کے طور پر فرشتوں نے میرے سامنے بیان کیا) کہ ایک سردار نے گھر بنایا اور کھانا تیار کیا پھر ایک بلانے والے کو بھیجا (تاکہ وہ لوگوں کو بلائے ) لہٰذا جس نے بلانے والے کی دعوت کو قبول کیا وہ گھر میں داخل هوا اور کھانے میں سے کھایا اور سردار خوش هوا ، اور جس نے بلانے والے کی دعوت کو قبول نه کیا وه گھر میں داخل هوا اور نہ کھانے میں سے کھایا اور نہ ہی اس سے سردار خوش ہوا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس مثال میں سردار سے مراد اللہ ہے، بلانے والے سے مراد محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) ہیں، گھر مراد اسلام ہے اور کھانے سے مراد جنت ہے۔" (دارمی)

تشریح :
چاہئے کہ آپ (صل الله علیه وسلم) کی آنکھیں سوئیں یعنی اپنی آنکھوں سے اور کچھ نہ دیکھئے، نہ کسی بات پر کان رکھئے اور نہ دل میں کوئی دوسرا سوال جمائیے فرشتوں کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ خوب غور و خوض اور حضور دل کے ساتھ اس مثال کو سنیے جو ہم بیان کرنے والے ہیں تاکہ یہ خوب اچھی طرح ذہن نشین ہو جائے، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ "فنامت عینای" یعنی میری آنکھیں سوئیں الخ، اسی مضمون کی وه حدیث جو پہلی فصل میں گزری اس کی مذکورہ مثال میں گھر سے جنت اور کھانے سے بہشت کی نعمتیں مراد لی گئی تھیں، اس حدیث میں گھر سے مراد اسلام لیا گیا ہے اور کھانے سے جنت مراد لی گئی ہے اس لئے کہ مکان بہشت میں داخل ہونے کا سبب اور ذریعہ ہے اس لئے اسے گھر کی تمثیل دی گئی ہے مادبۃ کے معنی مہمان کے کھانے کے ہیں، دونوں حدیث میں اس سے مراد جنت کی نعمتیں ہیں۔

یہ حدیث شیئر کریں