مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ کتاب اور سنت کو مضبوطی سے پکڑنے کا بیان ۔ حدیث 154

کتاب اور سنت کو مضبوطی سے پکڑنے کا بیان

راوی:

وَعَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم مَا مِنْ نَّبِیٍّ بَعَثَہُ اللّٰہُ فِیْ اُمَّتِہٖ قَبْلِیْ اِلَّا کَانَ لَہُ فِیْ اُمَّتِہٖ حَوَارِےُّوْنَ وَاَصْحٰبٌ ےَّاخُذُوْنَ بِسُنَّتِہٖ وَےَقْتَدُوْنَ بِاَمْرِہٖ ثُمَّ اِنَّھَا تَخْلُفُ مِنْ بَعْدِھِمْ خُلُوْفٌ ےَّقُوْلُوْنَ مَالَا ےَفْعَلُوْنَ وَےَفْعَلُوْنَ مَا لَا ےُؤْمَرُوْنَ فَمَنْ جَاھَدَھُمْ بِےَدِہٖ فَھُوَ مُؤْمِنٌ وَمَنْ جَاھَدَھُمْ بِلِسَانِہٖ فَھُوَ مُؤْمِنٌ وَمَنْ جَاھَدَھُمْ بِقَلْبِہٖ فَھُوَ مُؤْمِنٌ وَلَےْسَ وَرَآءَ ذَالِکَ مِنَ الْاِےْمَانِ حَبَّۃُ خَرْدَلٍٍ۔ (صحیح مسلم)

" اور حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی الله تعالیٰ عنه راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ مجھ سے پہلے کسی قوم میں اللہ نے کوئی نبی ایسا نہیں بھیجا جس کے مددگار اور دوست اسی قوم سے نہ ہوں جو اسی (نبی) کے طریقہ کو اختیار کرتے اور اس کے احکام کی پیروی کرتے پھر ان (دوست و مدوگار) کے بعد ایسے نا خلف (نالائق) لوگ پیدا ہوتے جو لوگوں سے ایسی بات کہتے جس کو خود نہ کرتے اور وہ کام کرتے جن کا انہیں حکم نہیں ملا تھا (جیسا کہ علماء سوء اور امراء وسرداروں کا طریقہ ہے) لہٰذا (تم سے) ۔ جو خاص لوگوں سے اپنے ہاتھ سے جہاد کرے وہ مومن ہے اور جو آدمی ان لوگوں سے اپنی زبان سے جہاد کرے وہ مومن ہے اور جو آدمی ان لوگوں سے اپنے دل سے جہاد کرے وہ مومن ہے اور اس کے علاوہ (جو آدمی ان کے خلاف اتنا بھی نہ کر سکے اس) میں رائی برابر بھی ایمان نہیں ہے۔" (صحیح مسلم)

تشریح :
ہاتھ سے جہاد کا مطلب تو ظاہر هے زبان سے جہاد کے معنی یہ ہیں کہ لوگوں کے غلط عقائد و اعمال کی بنا پر ان کو تنبیہ کرے اور ان کو اس سے منع کرے اور ان کی برائی بیان کرتا رہے اسی طرح دل سے جہاد کے معنی یہ ہیں کہ ایسی غلط چیزوں کو برا جانے جو دین و شریعت کے خلاف ہوں اور دل میں ان کے کرنے والوں سے بغض و نفرت رکھے۔
آخر میں فرمایا گیا کہ جس آدمی کا احساس اتنا مردہ ہو جائے کہ وہ غلط چیزوں کو دل سے بھی برا نہ جانے تو اس کا صاف مطلب یہ ہوگا کہ اس کے دل میں ایمان کی ہلکی سی روشنی بھی موجود نہیں ہے اس لئے کہ کسی غلط عقیدہ و عمل کو برا نہ جاننا گویا اس بات کا اظہار کرنا ہے کہ وہ اس بری بات سے راضی اور خوش ہے اور ظاہر ہے کہ یہ کفر کا خاصہ ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں