تیز ہوا کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا
راوی:
وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ مَا ھَبَّتْ رِیْحُ قَطُّ اِلَّا جَثَا النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم عَلٰی رُکْبَتَیْہِ وَقَالَ اَللّٰھُمَّ اجْعَلْھَا رَحْمَۃً وَّلَا تَجْعَلْھَا عَذَابًا اَللّٰھُمَّ اجْعَلْھَا رِیَا حًا وَلَا تَجْعَلْھَا رِیْحًا قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ فِیْ کِتَابِ اﷲِ تَعَالیٰ اِنَّا اَرْسَلْنَا عَلَیْھِمْ رِیْھَاصَرْ صَرَاوَّاَرْ سَلْنَا عَلَیْھِمُ الرِّیْحَ الْعَقِیْمَ وَاَرْسَلْنَا الرِّ یَاحَ لِوَاقِحٌ وَاَنْ یَّرْسِلَ الرِّیَاحَ مُبَشِّرَاتٍ رَوَاہُ الشَّافِعِیُّ وَالْبَیْھِقِیُّ فِی الدَّعْوَاتِ الْکَبِیْرِ۔
" حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ جب بھی (تیز) ہوا چلتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ( اللہ کے سامنے عجز و انکساری کے اظہار) امت کی طرف سے خوف اور تعلیم کے پیش نظر کہ دوسرے لوگ بھی ایسا ہی کریں) دوزانوں ہو کر بیٹھ جاتے تھے اور یہ دعا فرماتے تھے۔" اے اللہ ! اس ہوا کو ریاح (یعنی رحمت) بناء ریح (یعنی عذاب) نہ بنا۔" حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ قرآن کریم کی یہ آیات کریمہ ہیں (جن کا ترجمہ یہ ہے) کہ " اور بھیجی ہم نے ان پر تیز و تند ہوا۔" اور بھیجی ہم نے ان پر بانجھ ہوا (یعنی ایسی ہوا جو درختوں کو ثمر آور نہیں ہونے دیتی تھی)" اور بھیجیں ہم نے میوہ لانے والی ہوائیں۔" اور یہ کہ بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ (بارش کی) خوشخبری لانے والی ہوائیں۔" (شافعی ، بیہقی)
تشریح
مشہور اور صحیح یہ ہے کہ لفظ " ریح" جو مفرد ہے عذاب کے موقع پر استعمال کیا جاتا ہے جیسا کہ اس روایت میں ذکر کردہ پہلی دونوں آیتوں سے معلوم ہوا، اور لفظ " ریاح" جو جمع ہے رحمت کے موقع پر مستعمل ہوتا ہے جیسا کہ آخر کی دونوں آیتوں سے ثابت ہوا ۔
پس حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی اس روایت میں مذکور دعا میں " ریاح" سے مراد رحمت اور " ریح" سے مراد " عذاب" ہے لیکن ابوجعفر طحاوی نے اس میں اشکال ظاہر کیا ہے کیونکہ قرآن کریم ہی میں یہ بھی ارشاد ہے کہ وجرین بھم بر یح طیبۃ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ " ریح" رحمت و بھلائی کے لئے مستعمل ہے۔
اسی طرح بعض احادیث میں بھی لفظ" ریح" جو مفرد ہے خیر و شر دونوں موقعوں کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر حضرت ابو
ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی گذشتہ روایت ( نمبر ٦) کے الفاظ الریح من روح اللہ الخ کو دیکھ لیجئے۔ لہٰذا اس اشکال کے پیش نظر خطابی نے اس حدیث کی توجیہہ یہ کی ہے کہ جب بہت ساری ہوائیں آتی ہیں تو وہ ابروبارش لاتی ہیں اور کھیتوں میں نمو پیدا کرتی ہیں۔ جب کہ ایک ہوا میں یہ تایثر کم ہوتی ہے اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا فرمائی کہ " اے اللہ ! اس ہوا کو ریاح بنا ، ریح نہ بنا۔"