کتاب اور سنت کو مضبوطی سے پکڑنے کا بیان
راوی:
وعَنْ عَبْدِاللّٰہِ ابْنِ عَمْرٍورَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمَا قَالَ ھَجَّرْتُ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم ےَوْمًا قَالَ فَسَمِعَ اَصْوَاتَ رَجُلَےْنِ اخْتَلَفَا فِیْ اٰےَۃٍ فَخَرَجَ عَلَےْنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم ےُِعْرَفُ فِیْ وَجْھِہٖ الْغَضَبُ فَقَالَ اِنَّمَا ھَلَکَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ بِاِخْتِلَافِھِمْ فِیْ الْکِتَابِ۔(صحیح مسلم)
" اور حضرت عبداللہ بن عمرو رضی الله تعالیٰ عنه راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، حضرت عبداللہ رضی الله تعالیٰ عنه فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو آدمیوں کی آوازیں سنیں جو ایک (متشابہ) آیت میں اختلاف کر رہے تھے یعنی اس کے معنی میں جھگڑ رہے تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان تشریف لائے (اس وقت) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر غصہ کے آثار نمایاں تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم سے پہلے کے لوگ کتاب (الہٰی) میں اختلاف کرنے کی وجہ سے ہلاک ہوئے ہیں۔" (صحیح مسلم)
تشریح :
اس سے مراد وہ اختلاف ہے جس کی وجہ سے قلوب شک میں گرفتار ہوں، یا ایمان میں کمزوری پیدا ہو اور آپس میں فتنہ وفساد اور دشمنی کا سبب نیز کفر و بدعت کا باعث ہو، جیسے نفس قرآن میں اختلاف کرنا، اس کے معنی و مطالب میں فرق پیدا کرنا، ظاہر ہے کہ ان چیزوں میں نہ تو اجتہاد جائز ہے اور نہ اختلاف کرنا صحیح ہے، ہاں علمائے مجتہدین کے اختلاف صحیح ہیں جو اللہ کی رحمت کا باعث اور دین و شریعت میں وسعت کا ذریعہ ہیں، چنانچہ صحابہ کرام رضوان الله علیهم سے اس طرح کا اجتہادی اختلاف جو فائدہ مند ہے، منقول ہے جو جائز تھا اور جس کی وجہ سے بے شمار مسائل کا استنباط ہوا اور امت ان سے منتفع ہوگئی۔