کتاب اور سنت کو مضبوطی سے پکڑنے کا بیان
راوی:
وَعَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَاقَالَتْ تَلاََ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم ھُوَالَّذِیْ اَنْزَلَ عَلَےْکَ الْکِتَابَ مِنْہُ اٰےٰتٌ مُحْکَمٰتٌ وَّقَرَءَ اِلٰی ''وَمَا ےَذَّکَّرُ اِلَّا اُوْلُوالْاَلْبَابِ''(پ٣۔ رکوع٩) قَالَتْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم فَاِذَا رَاَےْتِ وَعِنْدَ مُسْلِمٍ رَاَےْتُمُ الَّذِےْنَ ےَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَہَ مِنْہُ فَاُولٰئِۤکَ الَّذِےْنَ سَمّٰھُمُ اللّٰہُ فَاحْذَرُوْھُمْ۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
" اور حضرت عائشہ رضی الله تعالیٰ عنها فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی (ھُوَ الَّذِيْ اَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتٰبَ مِنْهُ اٰيٰتٌ مُّحْكَمٰتٌ) 3۔ آل عمران : 7) ترجمہ : یہ وہ (خدا) ہے جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کتاب نازل کی کہ جس کی بعض آیات محکم ہیں۔ اور آخر آیت وَمَا يَذَّكَّرُ اِلَّا اُولُوا الْاَلْبَابِ (3۔ آل عمران : 7) اور نہیں نصیحت پکڑتے مگر صاحب عقل، تک پڑھی، حضرت عائشہ رضی الله عنها کہتی ہیں کہ یہ آیت پڑھ کر، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس وقت تو دیکھے اور مسلم کی روایت میں ہے" جب تم دیکھو" کہ لوگ ان آیتوں کے پیچھے پڑتے ہیں جو متشابہ ہیں تو (تم سمجھو کہ یہ) وہ لوگ ہیں جن کا نام اللہ تعالیٰ نے (کجرو یا گمراہ) رکھا ہے لہٰذا ان لوگوں سے بچتے رہو۔" (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح :
آیت کا بقیہ حصہ یہ ہے آیت ( ھُنَّ اُمُّ الْكِتٰبِ وَاُخَرُ مُتَشٰبِهٰتٌ فَاَمَّا الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَا ءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَا ءَ تَاْوِيْلِه څ وَمَا يَعْلَمُ تَاْوِيْلَه اِلَّا اللّٰهُ ڤ وَالرّٰسِخُوْنَ فِي الْعِلْمِ يَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِه كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا وَمَا يَذَّكَّرُ اِلَّا اُولُوا الْاَلْبَاب) 3۔ آل عمران : 7)
" اور وہی (آیات محکمات) اصل کتاب ہیں اور بعض آیات متشابہ ہیں۔ ایسے لوگ کہ جن کے دلوں میں کجی ہے وہ متشابہات کا اتباع کرتے ہیں تاکہ فتنہ برپا کریں اور مراد اصلی کا پتہ لگائیں ، حالانکہ مراد اصلی اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا، اور جو لوگ علم میں کامل دسترس رکھتے ہیں وہ یہ فرماتے ہیں کہ ہم ان پر ایمان لائے یہ سب ہمارے پروردگار کی طرف سے ہیں اور نصیحت تو عقلمند ہی قبول کرتے ہیں۔"
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو لوگ آیات متشابہات کے پیچھے پڑتے ہیں اور ان کی اصل مراد کو پانے کے لئے اپنی عقل کے تیر چلاتے ہیں ان کو اللہ نے کجرو یعنی گمراہ کہا ہے جیسا کہ آیت بالا (فَاَمَّا الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ زَيْغٌ) 3۔ آل عمران : 7) سے معلوم ہوا۔
حاصل یہ ہے کہ قرآن کریم میں دو طرح کی آیتیں ہیں اول " آیات محکمات" یہ وہ آیتیں ہیں جس کے معنی و مطلب ظاہر ہوتے ہیں ان میں اخفاء و ابہام نہیں ہوتا، دوسری آیات متشابہات ہیں یعنی جن کے معنی ظاہر نہیں ہوتے بلکہ ان کی حقیقی مراد کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہوتا ہے جیسے آیت (يَدُ اللّٰهِ فَوْقَ اَيْدِيْهِمْ) 48۔ الفتح : 10) وغیرہ۔
لہٰذا جو لوگ نیک اور صالح ہوتے ہیں اور جن کے قلوب ایمان و ایقان کی روشنی سے پوری طرح منور ہوتے ہیں وہ آیات محکمات کے معنی و مطالب کو سمجھتے بھی ہیں اور ان پر ایمان بھی لاتے ہیں اور آیات متشابہات پر پوری رسوخ وایقان کے ساتھ ایمان لا کر ان کے معنی و مطالب اور حقیقی مراد کا علم اللہ کے سپرد کر دیتے ہیں کہ وہی بہتر جاننے والا ہے۔
لیکن جن لوگوں کے قلوب میں کجی ہوتی ہے اور جن کے ذہن گمراہ ہوتے ہیں وہ آیات متشابہات کے پیچھے پڑجاتے ہیں اور ان میں اپنی طرف سے غلط تاویلین کر کے خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں اس حدیث اور مذکورہ بالا آیات شریفہ کا یہی خلاصہ اور مطلب ہے