کتاب اور سنت کو مضبوطی سے پکڑنے کا بیان
راوی:
وعَنْ اَبِیْ مُوْسٰیص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم مَثَلُ مَا بَعَثَنِیَ اللّٰہُ بِہٖ مِنَ الْھُدٰی وَالْعِلْمِ کَمَثَلِ الْغَےْثِ الْکَثِےْرِ اَصَابَ اَرْضًا فَکَانَتْ مِنْھَا طَآئِفَۃٌ طَےِّبَۃٌ قَبِلَتِ الْمَآءَ فَاَنْبَتَتِ الْکَلَأَوَالْعُشْبَ الْکَثِےْرَ وَکَانَتْ مِنْھَا اَجَادِبُ اَمْسَکَتِ الْمَاءَ فَنَفَعَ اللّٰہُ بِھَا النَّاسَ فَشَرِبُوْا وَسَقَوْا وَزَرَعُوْا وَاَصَابَ مِنْھَا طَآئِفَۃً اُخْرٰی اِنَّمَا ھِیَ قِےْعَانٌ لَا تُمْسِکُ مَآئً وَّلَا تُنْبِتُ کَلَائً فَذَالِکَ مَثَلُ مَنْ فَقُہَ فِیْ دِےْنِ اللّٰہِ وَنَفَعَہُ مَا بَعَثَنِیَ اللّٰہُ بِہٖ فَعَلِمَ وَعَلَّمَ وَمَثَلُ مَنْ لَّمْ ےَرْفَعْ بِذَالِکَ رَاْسًا وَّلَمْ ےَقْبَلْ ھُدَی اللّٰہِ الَّذِیْ اُرْسِلْتُ بِہٖ۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
" اور حضرت ابوموسیٰ رضی الله تعالیٰ عنه راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی الله علیه وسلم نے ارشاد فرمایا: اس چیز کی مثال جسے اللہ نے مجھے دے کر بھیجا ہے یعنی علم اور ہدایت کثیر بارش کی مانند سے جو زمین پر بوئی چنانچہ زمین کے اچھے ٹکڑے نے اسے قبول کر لیا یعنی اپنے اندر جذب کر لیا، اس سے بہت زیادہ خشک و ہری گھاس پیدا ہوئی اور زمین کا ایک ٹکڑا ایسا سخت تھا کہ اس کے اوپر پانی جمع ہو گیا اللہ نے اس سے بھی لوگوں کو نفع پہنچایا اور لوگوں نے اسے پیا اور پلایا اور کھیتی کو سیراب کیا اور یہ (بارش کا پانی) زمین کے ایسے ٹکڑے پر بھی (پہنچا) جو چٹیل سخت میدان تھا نہ تو اس نے پانی کو روکا اور نہ گھاس کو اگایا لہٰذا یہ سب (مذکورہ مثالیں) اس آدمی کی مثال ہے جس نے اللہ کے دین کو سمجھا اور جو چیز اللہ تعالیٰ نے میری وساطت سے بھیجی تھی اس نے اس سے نفع اٹھایا پس اس نے خود سیکھا اور دوسروں کو سکھایا، اور اس آدمی کی مثال ہے جس نے اللہ کے دین کو سمجھنے کے لئے تکبر کی وجہ سے سر نہیں اٹھایا اور اللہ تعالیٰ کی ہدایت کو جو میرے ذریعہ بھیجی گئی تھی قبول نہیں کیا۔" (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح :
اس میں دو قسم کے آدمی ذکر کئے گئے ہیں ایک تو دین سے فائدہ اٹھانے والے اور دوسرے دین سے فائدہ نہ اٹھانے والے، اسی طرح مثال مذکورہ میں زمین دو قسم کی بیان کی گئی ہے، زمین کی ایک قسم تو وہ ہے جو پانی سے فائدہ اٹھاتی ہے، دوسرے وہ جو پانی سے کوئی فائدہ نہیں اٹھاتی پھر فائدہ اٹھانے والی کی بھی دو قسمیں ہیں۔ ایک اگانے والی اور دوسری نہ اگانے والی۔
ٹھیک اسی طرح علم دین سے بھی فائدہ اٹھانے والے دو طرح کے ہوتے ہیں، پہلا وہ آدمی جو عالم بھی ہو اور عابد و فقیہ اور معلم بھی۔ اس پر زمین کے اس ٹکڑے کی مثال صادق آتی ہے جس نے پانی کو اپنے اندر جذب کر لیا، خود بھی فائدہ اٹھایا اور دوسروں کو بھی نفع پہنچایا نیز گھاس بھی اگائی ۔ اسی طرح اس آدمی نے علم دین سے خود بھی فائدہ اٹھایا اور دوسروں کو بھی اپنے علم سے مستفیض کیا۔ دوسرا وہ آدمی ہے جو عالم و معلم ہو مگر عابد وفقیہ نہ ہو، نہ تو وہ نوافل وغیرہ میں مشغول ہوا اور نہ اس نے اپنے علم میں تفقہ یعنی سمجھ بوجھ پیدا کی، اس کی مثال زمین کے اس حصہ کی مانند ہے جس میں پانی جمع ہوگیا اور لوگوں نے اس سے فائدہ اٹھایا۔ یا پھر زمین کا وہ حصہ جس نے پانی کو جذب بھی کیا اور گھاس بھی اگائی وہ مجتہدین کی مثال ہے کہ جنہوں نے علم حاصل کیا، پھر بہت سے مسائل کا استنباط کیا اس سے خود بھی منتفع ہوئے اور دوسروں کو بھی فائدہ پہنچایا۔
اور زمین کے اس حصہ کی مثال جس میں پانی جمع ہوا، محدثین ہیں کہ انہوں نے علم حدیث حاصل کیا اور اس علم کو بعینہ دوسرے لوگوں تک پہنچا دیا، ان دونوں کے مقابلہ میں تیسرا آدمی وہ ہے جس نے ازراہ غرور و تکبر اللہ کے دین کے سامنے اپنی گردن نہیں جھکائی، نہ اس نے علم دین کی طرف کوئی توجہ والتفات کی اور نہ اس نے اللہ اور اللہ کے رسول کے پیغام کو سنا اور نہ اس پر عمل کیا اور نہ علم کی روشنی دوسروں تک پہنچائی، اب چاہے یہ دین محمدی میں داخل ہو یا نہ ہو اور یا کافر ہو، اس کی مثال زمین شور کی ہے کہ جس نے نہ پانی کو قبول کر کے اپنے اندر جذب کیا، نہ پانی کو جمع کیا اور نہ کچھ اگایا۔