نماز کسوف میں رکوع و سجود کی تعداد
راوی:
عَنْ جَابِرٍص قَالَ انْکَسَفَتِ الشَّمْسُ فِیْ عَھْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم ےَوْمَ مَاتَ اِبْرٰھِےْمُ بْنُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم فَصَلّٰی بِالنَّاسِ سِتَّ رَکَعَاتٍ بِاَرْبَعِ سَجَدٰتٍ۔(صحیح مسلم)
" اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے حضرت ابراہیم کا انتقال ہوا تھا سورج گرہن ہوا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو چھ رکوع اور چار سجدے کے ساتھ نماز پڑھائی۔" (صحیح مسلم)
تشریح
حضرت ابر اہیم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے تھے جو ماریہ قبطیہ کے بطن سے ٨ھ میں پیدا ہوئے تھے اور ١٠ ھ میں حالت شیر خوارگی میں وفات پاگئے تھے، ان کی عمر صرف اٹھارہ مہینے یا اس سے کچھ زیادہ ہوئی تھی۔ جس دن ان کا انتقال ہوا اس دن سورج کو گرہن لگا۔ چنانچہ لوگوں نے کہا کہ سورج گرہن ان کی وفات ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ جس کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تردید فرمائی جیسا کہ گذشتہ روایتوں میں معلوم ہو چکا ہے۔
" چھ رکوع اور چار سجدے کے ساتھ" کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت نماز پڑھی اور ہر رکعت میں تین تین رکوع اور دو دو سجدے کئے ۔ جیسا کہ اس باب کی احادیث میں اس نماز کے رکوع کی تعداد مختلف بیان ہوئی ہے ۔ لہٰذا حضرت امام اعظم ابوحنیفہ نے ان احادیث کو ترجیح دی ہے جن میں ہر رکعت میں صرف ایک رکوع کا ذکر کیا گیا ہے کیونکہ نہ صرف یہ کہ اصل یہی ہے کہ ہر رکعت میں ایک رکوع ہو بلکہ اس بارہ میں قولی اور فعلی دونوں طرح کی احادیث منقول ہیں۔ پھر یہ کہ حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کی مستدل روایت کے علاوہ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ اور دوسرے اکثر اہل علم حضرات کے یہاں یہ بھی مسئلہ ہے کہ اگر گرہن دیر تک رہے تو یہ جائز ہے کہ ہر رکعت میں تین یا چار یا پانچ رکوع بھی کئے جا سکتے ہیں۔