گرہن کے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کیفیت
راوی:
" اور حضرت ابوموسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ (جب) سورج گرہن ہو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھبرائے ہوئے کھڑے ہوگئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایسا خوف طاری ہوا جیسے قیامت ہوگئی ہو۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لائے اور طویل قیام و رکوع اور سجود کے ساتھ نماز پڑھی میں نے اس طرح کبھی آپ صلی علیہ وسلم کو (اتنا طویل قیام و رکوع اور سجود) کرے ہوئے نہیں دیکھا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ نشانیاں جو اللہ تعالیٰ بھیجتا ہے ۔ نہ تو کسی کے مرنے کے سبب سے ( ظاہر ہوتی ) ہیں اور نہ کسی کی پیدائش کی وجہ سے ، ہاں اس ذریعہ سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے، لہٰذا جب تم ان نشانیوں میں سے کوئی نشانی دیکھو تو اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے اس کا ذکر کرنے ، اس سے دعا مانگنے اور استغفار کرنے میں مصروف ہو جاؤ۔" (صحیح مسلم صحیح البخاری
تشریح
الفاظ یخشی ان تکون الساعۃ دراصل راوی نے بطریق تمثیل استعمال کئے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس موقع پر اس طرح گھبرائے ہوئے اور خوف زدہ تھے جیسا کہ کوئی آدمی قیامت شروع ہوجانے پر گھبرا جائے اور خوف زدہ ہو جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ خوف اس وجہ سے نہیں تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سمجھے ہوں کہ قیامت شروع ہو گئی ہے چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پوری طرح جانتے تھے کہ جب تک کہ میں لوگوں میں موجود ہوں قیامت نہیں آسکتی ۔
بہر حال، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی نشانیوں کے ظہور مثلاً سورج و چاند گرہن ، زلزے ، آندھی و طوفان اور چمک و کڑک کے وقت جو گھبراتے اور ڈرتے تھے تو اس میں صرف زمین کے اوپر بسنے والے انسانوں کی شفقت کا جذبہ کار فرما تھا چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ذات کی طرف سے نہیں بلکہ دنیا والوں کی طرف سے خوف زدہ ہو جایا کرتے تھے کہ کہیں یہ اپنے دامن میں دنیا والوں کی تباہی و بربادی کا پیغام نہ لئے ہو اور اس صورت میں لوگوں پر اللہ کا عذاب نازل نہ ہو جائے۔
وقال ھذہ الا یات کا مطلب یہ ہے کہ چاند و سورج گرہن ہو نا، زلزلوں اور آندھی اور طوفانوں کا آنا اور بجلی کی کڑک وغیرہ یہ سب اللہ کی قدرت کی نشانیاں ہیں جن کے ذریعہ وہ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے اور انسانوں کو یہ بتانا چاہتا ہے کہ دیکھو میں تغیر حالت، قسمت کے چھین لینے اور عذاب نازل کرنے پر کیسا قادر ہوں؟