مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ گرہن کے متعلق احادیث کی کتاب ۔ حدیث 1457

سورج گرہن کا حقیقی سبب

راوی:

وَعَنْ عَآئِشَۃَ رضی اللہ عنہا نَحْوَ حَدِےْثِ ابْنِ عَبَّاسٍ وَّقَالَتْ ثُمَّ سَجَدَ فَاَطَالَ السُّجُوْدَ ثُمَّ انْصَرَفَ وَقَدِ انْجَلَتِ الشَّمْسُ فَخَطَبَ النَّاسَ فَحَمِدَ اللّٰہَ وَاَثْنٰی عَلَےْہِ ثُمَّ قَالَ اِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ اٰےَتَانِ مِنْ اٰےَاتِ اللّٰہِ لَا ےَخْسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَّلَا لِحَےٰوتِہٖ فَاِذَا رَأَےتُمْ ذَالِکَ فَادْعُوْاللّٰہَ وَکَبِّرُوْا وَصَلُّوْاوَتَصَدَّقُوْا ثُمَّ قَالَ ےَا اُمَّۃَ مُحَمَّدٍ صلی اللہ علیہ وسلم وَاللّٰہِ مَا مِنْ اَحَدٍ أَغْےَرُ مِنَ اللّٰہِ اَنْ ےَّزْنِیَ عَبْدُہُ اَوْ تَزْنِیَ اَمَتُہُ ےَا اُمَّۃَمُحَمَّدٍ صلی اللہ علیہ وسلم وَّاللّٰہِ لَوْ تَعْلَمُوْنَ مَا اَعْلَمُ لَضَحِکْتُمْ قَلِےْلًا وَّلَبَکَےْتُمْ کَثِےْرًا۔(صحیح البخاری و صحیح مسلم)

" اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے (بھی) حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی مذکورہ بالا روایت کی طرح روایت منقول ہے چنانچہ انہوں نے یہ (بھی) فرمایا ہے کہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں گئے تو بڑا طویل سجدہ کیا پھر نماز سے فارغ ہوئے تو (آفتاب) روشن ہو چکا تھا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (لوگوں کے سامنے) خطبہ ارشاد فرمایا: چنانچہ (پہلے) آپ نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان فرمائی اور پھر فرمایا کہ سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، نہ تو کسی کی موت کی وجہ انہیں گرہن لگتا ہے اور نہ کسی کی پیدائش کی وجہ سے چنانچہ جب تم گرہن دیکھو تو اللہ سے دعا مانگو، تکبیر کہو اور نماز پڑھو نیز اللہ کی راہ میں خیرات کرو۔ پھر فرمایا کہ اے امت محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) ! قسم ہے پروردگار کی اللہ تعالیٰ سے زیادہ کوئی غیرت مند نہیں ہے ۔ جب کہ اس کا کوئی بندہ زنا کرتا ہے یا اس کی کوئی بندی زنا میں مبتلاء ہوتی ہے اور اے امت محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) ! قسم ہے خد اکی، اگر تم لوگ وہ چیز جان لو جو میں جانتا ہوں (یعنی یوم آخرت کی ہو لناکی اور پروردگار کا غضب) تو اس میں کوئی شک نہیں تمہارا ہنسنا کم اور تمہارا رونا زیادہ ہو جائے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
اس روایت میں سجدہ کی طولات ، خطبہ ، دعا، تکبیر ، نماز اور خیرات کرنے کا ذکر و حکم اور حدیث کے آخری الفاظ مزید منقول ہیں جب کہ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی روایت میں ان کا ذکر نہیں ہے۔
" غیرت" کے اصل معنی ہیں " اپنے حق میں کسی غیر کی شرکت کو برا جاننا۔" اور اللہ تعالیٰ کی غیرت کا مطلب ہے " اپنے احکام میں بندوں کی نافرمانی اور امرو نہی کے خلاف کرنے کو برا جاننا۔" ارشاد کا حاصل یہ ہے کہ اللہ کا کوئی بندہ یا اس کی کوئی بندی جب زنا میں مبتلا ہوتی ہے تو اس معاملہ میں تمہیں جتنی غیرت محسوس ہوتی ہے اور ان دونوں سے تمہیں جتنی نفرت ہوتی ہے اللہ تعالیٰ کی غیرت اس سے کہیں زیادہ شدید اور اس کی نفرت تمہاری نفرت سے کہیں زیادہ سخت ہوتی ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں