عتیرہ کا بیان
راوی:
عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَص عَنِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ لاَ فَرَعَ وَلَا عَتِےْرَۃَ قَالَ وَالْفَرَعُ اَوَّلُ نِتَاجٍ کَانَ ےُنْتَجُ لَھُمْ کَانُوْا ےَذْبَحُوْنَہُ لِطَوَاغِےْتِھِمْ وَالْعَتِےْرَۃُ فِیْ رَجَبٍ۔(صحیح البخاری و صحیح مسلم)
" حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " فرع اور عتیرہ (کی) اسلام میں (کوئی حقیقت) نہیں۔" ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں " فرع جانور کا وہ پہلا بچہ ہے جو کافروں کے یہاں پیدا ہوتا ہے تو وہ اسے اپنے بتوں کے نام پر ذبح کرتے تھے۔" (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
ایام جاہلیت میں یہ طریقہ تھا کہ کسی کے ہاں جب جانور کے پہلا بچہ پیدا ہوتا تھا تو وہ اسے بتوں کے نام پر ذبح کرتا تھا۔ ابتداء اسلام میں بھی یہ طریقہ جاری رہا کہ مسمان اس بچہ کو اللہ کے نام پر ذبح کر دیتے تھے مگر بعد میں اس طریقہ کو منسوخ قرار دے دیا گیا اور کفار کی مشابہت کے پیش نظر مسلمانوں کو اس سے منع کر دیا گیا۔
عتیرہ کسے فرماتے ہیں؟ : نیز ایام جاہیلت میں ایک رسم یہ بھی تھی کہ لوگ ماہ رجب کے پہلے عشرہ میں اپنے معبود کا تقرب حاصل کرنے کے ایک بکری ذبح کرتے تھے اسی کو عتیرہ کہا جاتا ہے۔ چنانچہ ابتداء اسلام میں مسلمان بھی ایسا کرتے تھے مگر کافر تو اپنے بتوں کے نام پر ذبح کرتے تھے اور مسلمان اسے تقرب الی اللہ کا ذریعہ سمجھ کر اللہ کے نام پر ذبح کرتے تھے پھر بعد میں اسے بھی منسوخ قرار دے کر مسلمانوں کو اس سے منع کر دیا گیا۔
بعض حضرات فرماتے ہیں کہ یہ ممانعت اسی لئے تھی کہ وہ اسے اپنے بتوں کے نام پر ذبح کرتے تھے، اگر اللہ تعالیٰ کے نام پر ذبح کیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں لیکن صحیح مسئلہ یہ ہے کہ بت پرستوں کی مشابہت سے بچنے کے لئے یہ ممانعت عام ہے۔