مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ کتاب اور سنت کو مضبوطی سے پکڑنے کا بیان ۔ حدیث 145

کتاب اور سنت کو مضبوطی سے پکڑنے کا بیان

راوی:

وعَنْ اَبِیْ مُوْسٰی صقَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِنَّمَا مَثَلِیْ وَمَثَلُ مَا بَعَثَنِیَ اللّٰہُ بِہٖ کَمَثَلِ رَجُلٍ اَتٰی قَوْمًا فَقَالَ ےَاقَوْمِ اِنِّیْ رَأَ ےْتُ الْجَےْشَ بِعَےْنَیَّ وَاِنِّیْ اَنَا النَّذِےْرُ الْعُرْےَانُ فَالنَّجَآءَ النَّجَآءَ فَاَطَاعَہُ طَآئِفَۃٌ مِّنْ قَوْمِہٖ فَاَدْلَجُوْا فَانْطَلَقُوْا عَلٰی مَھْلِھِمْ فَنَجَوْا وَکَذَّبَتْ طَآئِفَۃٌ مِّنْھُمْ فَاَصْبَحُوْا مَکَانَھُمْ فَصَبَّحَھُمُ الْجَےْشُ فَاَھْلَکَھُمْ وَاجْتَاحَھُمْ فَذَالِکَ مَثَلُ مَنْ اَطَاعَنِیْ فَاتَّبَعَ مَا جِئْتُ بِہٖ وَمَثَلُ مَنْ عَصَانِیْ وَکَذَّبَ مَا جِئْتُ بِہٖ مِنَ الْحَقِّ۔(صحیح البخاری و صحیح مسلم)

" اور حضرت ابوموسیٰ رضی الله تعالیٰ عنه راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میری اور اس چیز کی مثال جسے دے کر اللہ نے مجھے بھیجا ہے (یعنی دین و شریعت) اس آدمی کی سی ہے جو ایک قوم کے پاس آیا اور کہا، اے قوم ! میں نے اپنی آنکھوں سے ایک لشکر دیکھا ہے اور میں ننگا (یعنی بے غرض) ڈرانے والا ہوں، لہٰذا تم اپنی نجات کو تلاش کرو، چنانچہ اس کی قوم کی ایک جماعت نے اس کی فرمانبرداری کی اور راتوں رات آہستہ آہستہ نکل گئی اور نجات پالی ان میں سے ایک گروہ نے اس کو جھٹلایا اور صبح تک اپنے گھروں میں رہا صبح کو لشکر نے آکر ان کو پکڑ لیا اور ہلاک کر ڈالا (یہاں تک کہ) ان کی جڑیں کھود ڈالیں یعنی ان کی نسل تک کا خاتمہ کر دیا، چنانچہ یہی مثال ہے اس آدمی کی جس نے میری فرمانبرداری کی اور جو (احکام) میں لایا ہوں ان کی پیروی کی، اور اس آدمی کی بھی یہی مثال ہے جس نے میری نافرمانی کی اور جو حق بات (یعنی دین و شریعت میں لے کر آیا ہوں اس کی تکذیب کی۔" (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح :
ننگا ڈرانے والے کی اصل یہ ہے کہ عرب میں قاعدہ تھا کہ جب کوئی آدمی کسی لشکر کو اپنی قوم پر حملہ کے لئے آتا ہوا دیکھتا تو کپڑے اتار کر سر پر رکھ لیتا اور بالکل ننگا ہو کر چلاتا ہوا اپنی قوم کی طرف آتا تاکہ لوگ خبردار ہو جائیں اور دشمن کی اچانک آمد سے بچاؤ کی شکل پیدا کر سکیں۔ اسی کو ننگا ڈرانے والا کہا جاتا تھا، اس کے بعد سے یہ کسی ناگہانی اور خوفناک حادثہ کے پیش آنے میں صرف ایک ضرب المثل بن گیا ۔
چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ مثال بالکل صحیح و صادق تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمانبردار اور اطاعت گزار کو جنت اور رضاء مولیٰ کی خوشخبری اور نافرمانبردار و سر کش جماعت کو اللہ کے عذاب و غضب کی خبر دینے میں بالکل سچے تھے۔

یہ حدیث شیئر کریں