مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ قربانى کا بیان ۔ حدیث 1435

قربانی کے وقت کی دعا

راوی:

وَعَنْ جَابِرٍ قَالَ ذَبَحُ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم یَوْمَ الذَّبْحِ کَبْشَیْنِ اَقْرَنَیْنِ اَمْلَحَیْنِ مَوْجُوْئَیْنِ فَلَمَّا وَجَّھَھُمَا قَالَ اِنِّی وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِی فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ عَلَی مِلَّۃِ اِبْرَاھِیْمَ حَنِیْفًا وَّمَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ اِنَّ صَلَاتِی وَنُسُکِی وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ لَا شَرِیْکَ لَہ، وِبِذَلِکَ اُمِرْتُ وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ اَللّٰھُمَّ مِنْکَ وَلَکَ عَنْ مُّحَمَّدٍ وَاُمَّتِہٖ بِسْمِ اﷲِ وَاﷲُ اَکْبَرُ ثُمَّ ذَبَحَ رَوَاہُ اَحْمَدُ وَ اَبُوْدَاؤدَ ابْنُ مَاجَۃَ وَالدَّارِمِیُّ وَفِی رِوَایَۃٍ لِاَحْمَدَ وَاَبِیْ دَاؤدَ وَالتِّرْمِذِیِّ ذَبَحَ بَیَدِہٖ وَقَالَ بِسْمِ اﷲِ وَاﷲُ اَکْبَرُ اَللّٰھُمَّ ھٰذَا عَنِّی وَعَمَّنْ لَّمْ یُضِحِّ مِنْ اُمَّتِیْ۔

" حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذبح کے دن (یعنی عید قرباں کے دن ) دو دنبے جو سینگ دار ابلق اور خصی تھے ذبح کرنے چاہے تو ان کو قبلہ رخ کیا اور یہ پڑھا ۔ یعنی میں اپنا منہ اس ذات کی طرف متوجہ کرتا ہوں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، اس حال میں کہ میں دین ابراہیم پر ہوں جو تو حید کو ماننے والے تھے اور میں مشرکین میں سے نہیں ہوں بلاشبہ میری نماز، میری تمام عبادتیں، میری زندگی اور میری موت (سب کچھ) اللہ ہی کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے اور مجھے اس کا حکم دیا گیا ہے اور میں مسلمانوں میں سے ہوں اے اللہ ! یہ قربانی تیری عطاء سے ہے اور خالص تیری ہی رضا کے لئے ہے تو اس کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کی امت کی جانب سے قبول فرما ساتھ نام اللہ کے اور اللہ بہت بڑا ہے ۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذبح کیا ۔" (احمد بن حنبل، سنن ابوداؤد، سنن ابن ماجہ، دارمی ) نیز مسند احمد سنن ابوداؤد اور جامع ترمذی کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ " رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (دونوں دنبے) اپنے ہاتھ سے ذبح کئے ہیں کہا بسم اللہ و اللہ اکبر ، اے اللہ ! یہ قربانی میری جانب سے ہے اور میرے امت کے ہر اس فرد کی طرف سے ہے جس نے قربانی نہیں کی۔"

تشریح
خصی سے مراد وہ ہے جس کے بیضے کوٹ کر اس کی شہوت ختم کر دی جاتی ہے اس کی قربانی میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ایسا خصی فربہ ہوتا ہے اور اس کا گوشت لذیذ ہوتا ہے۔
وما انا من المشرکین (اور میں مشرکین میں سے نہیں ہوں) اس بارہ میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نبوت ملنے سے پہلے کس شریعت کے مطابق عبادت کیا کرتے تھے؟ چنانچہ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ نبوت ملنے سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شریعت کے مطابق ہوتی تھی، بعض علماء کا قول یہ ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام کی شریعت کے مطابق اور بعض علماء کی تحقیق یہ ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی شریعت کے مطابق آپ عبادت کیا کرتے تھے۔
اس سلسلہ میں صحیح قول یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی بھی شریعت کے مطابق عبادت نہیں کرتے تھے بلکہ اپنی فہم اور اپنے وجدان کے موافق آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی عبادت میں مشغول رہا کرتے تھے ۔ اور اللہ پر ایمان رکھتے تھے ۔ البتہ یہ بات بالکل اجماعی طور پر محقق اور ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم زندگی کے کسی بھی دور میں بت برستی کی نجاست میں ملوث نہیں ہوئے۔ اب سوال یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کس نوع اور کس طریقہ کی تھی؟ تو اس کے بارہ میں علماء لکھتے ہیں کہ وہ غیر معلوم ہے اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت کس طرح عبادت کرتے تھے؟
عن محمد وامتہ میں مشارکت یا تو ثواب پر محمول ہے یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذبح کے وقت یہ الفاظ فرما کر اپنی قربانی کے ثواب میں اپنی امت کو بھی شریک فرما لیا۔ یا اسے حقیقت پر بھی محمول کیا جا سکتا ہے مگر اس صورت میں کہا جائے گا یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص میں سے ہے۔" اس سلسلہ میں واضح ترین بات یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دنبہ تو اپنی طرف سے قربان کیا اور دوسرے دنبہ کی قربانی امت کی طرف سے کی۔"
اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوئی کہ اگر قربانی کرنے والا ذبح کرنے پر قادر ہو تو اس کے لئے اپنے ہاتھ سے قربانی کا جانور ذبح کرنا مستحب ہے اگرچہ عورت ہی کیوں نہ ہو۔"

یہ حدیث شیئر کریں