مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ قربانى کا بیان ۔ حدیث 1429

کس عمر کے جانور کی قربانی کرنی چاہیے؟

راوی:

وَعَنْ جَابِرٍص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم لَا تَذْبَحُوْا اِلَّا مُسِنَّۃً اِلَّا اَنْ ےُّعْسَرَ عَلَےْکُمْ فَتَذْبَحُوْاجَذَعَۃً مِّنَ الضَّاْنِ۔(صحیح مسلم)

" اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ " تم (قربانی میں صرف) مسنہ جانور ذبح کرو، ہاں اگر مسنہ نہ پاؤ تو پھر دنبہ بھیڑ کا جزعہ ذبح کر لو۔" (صحیح مسلم)

تشریح
مسنہ یا جزعہ کسی خاص جانور کا نام نہیں ہے بلکہ یہ ایک اصطلاح ہے جو قربانی کے جانور کی عمر کے سلسلہ میں مستعمل ہوتی ہے ۔ چنانچہ حنفی مسلک کے مطابق اس کی تفصیل یہ ہے کہ اونٹوں میں وہ اونٹ مسنہ کہلاتا ہے جو پورے پانچ سال کی عمر کا ہو اور چھٹے برس میں داخل ہو چکا ہو۔ گائے، بھینس اور بیل میں مسنہ اسے فرماتے ہیں جو پورے دو سال کی عمر کا ہو تیسرے سال میں داخل ہو چکا ہو ۔ بھیڑ اور دنبہ میں مسنہ وہ ہے جو اپنی عمر کو پورا ایک سال گزار کر دوسرے سال میں داخل ہو چکا ہو۔ لہٰذا ان جانوروں میں قربانی کے لئے جانور کا مسنہ ہونا ضروری ہے ۔ ہاں دنبہ اور بھیڑ کا اگر جزعہ بھی ہو تو اس کی قربانی جائز ہے ۔ جزعہ بھیڑ یا دنبہ کا وہ بچہ کہلاتا ہے جس کی عمر ایک برس سے تو کم ہو مگر چہ مہینہ سے زیادہ ہو۔
بعض حضرات فرماتے ہیں کہ جزعہ کی قربانی اس صورت میں جائز ہوگی جب کہ وہ اتنا فربہ ہو کہ اگر اسے مسنہ کے ساتھ کھڑا کر دیا جائے تو دور سے دیکھنے والا اسے بھی مسنہ گمان کرے اگر وہ فربہ نہ ہو بلکہ چھوٹا ہو اور دبلا ہو تو اس کی قربانی درست نہیں۔
بظاہرحدیث سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ اگر مسنہ بہم نہ پہنچے یا اس کی قیمت میسر نہ ہو تو جزعہ کی قربانی درست ہے ورنہ بصورت دیگر اس کی قربانی درست نہیں ہوگی۔ بلکہ فقہاء لکھتے ہیں کہ یہ استحباب پر محمول ہے یعنی مستحب تو یہی ہے کہ اگر مسنہ مل جائے اور اس کے خریدنے کی استطاعت ہو تو جزعہ کی قربانی نہ کرے۔ ویسے اگر مسنہ ہوتے ہوئے بھی کوئی جزعہ کی قربانی کرے گا تو درست ہوگئی۔"

یہ حدیث شیئر کریں