قربانی کے دنبہ کی صفات
راوی:
وَعَنْ عَائِشَۃَرضی اللہ عنہا اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِِ صلی اللہ علیہ وسلم اَمَرَ بِکَبْشٍ اَقْرَنَ ےَطَأُ فِیْ سَوَادٍ وَّےَبْرُکُ فِیْ سَوَادٍ وَےَنْظُرُ فِیْ سَوَادٍ فَاُتِیَ بِہٖ لِےُضَحِّیَ بِہٖ قَالَ ےَا عَآئِشَۃُ ھَلُمِّی الْمُدْےَۃَ ثُمَّ قَالَ اشْحَذِےْھَا بِحَجَرٍ فَفَعَلْتُ ثُمَّ اَخَذَھَا وَاَخَذَ الْکَبْشَ فَاَضْجَعَہُ ثُمَّ ذَبَحَہُ ثُمَّ قَالَ بِسْمِ اللّٰہِ اَللّٰھُمَّ تَقَبَّلْ مِنْ مُّحَمَّدٍ وَّاٰلِ مُحَمَّدٍ وَّمِنْ اُمَّۃِ مُحَمَّدٍ ثُمَّ ضَحّٰی بِہٖ۔(صحیح مسلم)
" اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (قربانی کے لئے ) ایک ایسے سینگ دار دنبہ کے لانے کا حکم دیا جو سیاہی میں چلتا ہو (یعنی اس کے پاؤں سیاہ ہوں) سیاہی میں بیٹھا ہو (یعنی اس کا پیٹ اور سینہ سیاہ ہو) اور سیاہی میں دیکھا ہو (یعنی اس کی آنکھوں کے گرد سیاہی ہو) چنانچہ (جب ) آپ کے لئے قربانی کے واسطے ایسا دنبہ لایا گیا ( تو ) فرمایا کہ " عائشہ ! چھری لاؤ (جب چھری لائی تو) پھر فرمایا کہ اسے پتھر پر (رگڑ کر) تیز کرو، میں نے چھری تیز کی ، آپ نے چھری لی اور دنبے کو پکڑ کر اسے لٹایا پھر جب اسے ذبح کرنے کا ارادہ کیا تو یہ فرمایا کہ اللھم تقبل من محمد و ال محمد و من امۃ محمد (یعنی اے اللہ ! اسے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) ، آل محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) اور امت محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) کی طرف سے قبول فرما) پھر اسے ذبح کر دیا۔" (صحیح مسلم)
تشریح
جب جانور کو ذبح کیا جا رہا ہو، اس کے سامنے چھری تیز کرنا مکروہ ہے کیونکہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارہ میں منقول ہے کہ انہوں نے ایک ایسے آدمی کو درے سے مارا تھا جس نے ایسا کیا تھا۔ اسی طرح ایک جانور کو دوسرے جانور کے سامنے ذبح کرنا بھی مکروہ ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذبح کرتے وقت جو الفاظ ارشاد فرمائے اس سے مراد صرف ثواب میں امت کو شریک کرنا تھا نہ یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کی طرف سے قبربانی کی تھی کیونکہ ایک دنبہ یا ایک بکری کی قربانی کئی آدمیوں کی طرف سے درست نہیں ہے۔