مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ کتاب اور سنت کو مضبوطی سے پکڑنے کا بیان ۔ حدیث 141

کتاب اور سنت کو مضبوطی سے پکڑنے کا بیان

راوی:

عَنْ جَابِرٍ قَالَ جَاءَ تْ مَلَائِکَۃٌ اِلٰی النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم وَھُوَ نَائِمٌ فَقَالُوا اِنَّ لِصَاحِبِکُمْ ھٰذَا مَثَلًا فَاضْرِبُوْا لَہُ مَثَلًا قَالَ بَعْضُھُمْ اِنَّہُ نَائِمٌ وَقَالَ بَعْضُھُمْ اِنَّ الْعَےْنَ نَائِمَۃٌ وَالْقَلْبَ ےَقْظَانٌ فَقَالُوا مَثَلُہُ کَمَثَلِ رَجُلٍ بَنٰی دَارًا وَ جَعَلَ فِےْھَا مَأْدُبَۃً وَبَعَثَ دَاعِےًا فَمَنْ اَجَابَ الدَّاعِیَ دَخَلَ الدَّارَ وَاَکَلَ مَعَہُ مِنَ الْمَأْدُبَۃِ وَمَنْ لَمْ ےُجِبِ الدَّاعِیَ لَمْ ےَدْخُلِ الدَّارَ وَلَمْ ےَأْکُلْ مِنَ الْمَاْدُبَۃِ فَقَالُوا اَوِّلُوْھَا لَہُ ےُفَقِّھُہَا قَالَ بَعْضُھُمْ اِنَّہُ نَائِمٌ وَقَالَ بَعْضُھُمْ اِنَّ الْعَےْنَ نَائِمَۃٌ وَالْقَلْبَ ےَقْظَانٌ فَقَالُوا اَلدَّارُ الْجَنَّۃُ وَالدَّاعِی مُحَمَّدٌ فَمَنْ اَطَاعَ مُحَمَّدًا فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ وَمَنْ عَصٰی مُحَمَّدًا فَقَدْ عَصٰی اللّٰہَ وَمُحَمَّدٌ فَرْقٌ بَےْنَ النَّاسِ ۔(صحیح البخاری)

" اور حضرت جابر رضی الله تعالیٰ عنه فرماتے ہیں کہ (کچھ) فرشتے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس وقت آئے جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سو رہے تھے فرشتوں نے آپس میں کہا۔ تمہارے اس دوست یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ایک مثال ہے اس کو ان کے سامنے بیان کرو، دوسرے فرشتوں نے کہا، وہ سوئے ہوئے ہیں (لہٰذا بیان کرنے سے کیا فائدہ) ان میں بعض نے کہا، بے شک آنکھیں سو رہی هیں لیکن دل تو جاگتا ہے، پھر اس نے کہا، ان کی مثال اس آدمی کی سی ہے جس نے گھر بنایا اور لوگوں کے کھانا کھانے کے لئے دستر خوان چنا اور پھر لوگوں کو بلانے کے لئے آدمی بھیجا لہٰذا جس نے بلانے والی بات کو مان لیا وہ گھر میں داخل ہوگا اور کھانا کھائے گا اور جس نے بلانے والے کی بات کو قبول نہ کیا وہ نہ گھر میں داخل ہوگا اور نہ کھانا کھائے گا یہ سن کر فرشتوں نے آپس میں کہا، اس کو (وضاحت کے ساتھ) بیان کرو تاکہ یہ اسے سمجھ لیں، بعض فرشتوں نے کہا بیان کرنے سے کیا فائدہ کیونکہ وہ تو سوئے ہوئے ہیں۔ دوسروں نے کہا، بے شک آنکھیں سو رہی ہیں لیکن دل تو جاگتا ہے اور پھر کہا، گھر سے مراد تو جنت ہے اور بلانے والے سے مراد محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری کی اس نے اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کی اور جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی اس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے درمیان فرق کرنے والے ہیں۔" (صحیح البخاری )

تشریح :
اس آدمی سے مراد جس نے گھر بنایا اور دستر خوان چنا اللہ تعالیٰ کی ذات ہے، اسی طرح دستر خوان اور کھانے سے مراد بہشت کی نعمتیں ہیں چونکہ یہ ظاہری طور پر مفہوم ہو رہے ہیں اس لئے ان کی وضاحت نہیں کی گئی آخر میں بتایا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی لوگوں کے درمیان فرق کرنے والی ہے یعنی کافر و مومن حق و باطل اور صالح و فاسق میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرق کرنے والے ہیں۔

تشریح :
اس آدمی سے مراد جس نے گھر بنایا اور دستر خوان چنا اللہ تعالیٰ کی ذات ہے، اسی طرح دستر خوان اور کھانے سے مراد بہشت کی نعمتیں ہیں چونکہ یہ ظاہری طور پر مفہوم ہو رہے ہیں اس لئے ان کی وضاحت نہیں کی گئی آخر میں بتایا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی لوگوں کی درمیان فرق کرنے والی ہے یعنی کافر و مومن حق و باطل اور صالح و فاسق میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرق کرنے والے ہیں۔

یہ حدیث شیئر کریں