مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ عیدین کا بیان ۔ حدیث 1404

عیدگاہ میں عورتوں کے جانے کا مسئلہ

راوی:

وَعَنْ اُمِّ عَطِےَّۃَ رضی اللہ عنہا قَالَتْ اُمِرْنَا اَنْ نُّخْرِجَ الْحُےَّضَ ےَوْمَ الْعِےْدَےْنِ وَذَوَاتِ الْخُدُوْرِ فَےَشْھَدْنَ جَمَاعَۃَ الْمُسْلِمِےْنَ وَدَعَوْتَھُمْ وَتَعْتَزِلُ الْحُےَّضُ عَنْ مُّصَلَّاھُنَّ قَالَتِ امْرَاَۃٌ ےَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اِحْدٰنَا لَےْسَ لَھَا جِلْبَابٌ قَالَ لِتُلْبِسْھَا صَا حِبَتُھَا مِنْ جِلْبَابِھَا۔(صحیح البخاری و صحیح مسلم)

" اور حضرت ام عطیہ فرماتی ہیں کہ ہمیں حکم دیا گیا کہ ہم عید و بقرہ عید کے دن ان عورتوں کو (بھی ) جو ایام والی ہوں (یعنی جو ایام سے ہوں یا یہ کہ جو بالغ ہوں) اور (بھی جو پردہ نشین ہوں (گویا یا تمام عورتوں کو) عید گاہ لے چلیں اور یہ سب مسلمانوں کی جماعت اور دعا میں شریک ہوں۔ نیز جو عورتیں ایام سے ہوں وہ نماز پڑھنے کی جگہ سے الگ رہیں" ایک عورت نے عرض کیا کہ " یا رسول اللہ ! ہم میں سے جس کے پاس چادر نہیں (وہ کیا کرے؟) " آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ " اسے ساتھ والی چادر اڑھا دے۔" (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

تشریح
خطابی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام عورتوں کو عید گاہ جانے کا حکم فرمایا تاکہ جن عورتوں کو کوئی عذر نہیں ہے وہ تو نماز پڑھیں اور جن عورتوں کو کوئی عذر ہے انہیں نماز اور دعا کی برکت پہنچے" گویا اس طرح لوگوں کو ترغیب دلائی جا رہی ہے کہ وہ نمازوں میں شریک ہوں ۔ وعظ و ذکر کی مجالس میں حاضر ہوں اور علماء و صلحا کا قرب حاصل کریں تاکہ انہیں اللہ کے ان نیک و مقدس بندوں کی برکت حاصل ہو" اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدس زمانے میں عورتوں کے لئے عید گاہ جانا ممنوع نہیں تھا مگر آجکل کے زمانے میں فتنہ و فساد کے خوف سے عورتوں کے لئے عیدہ گاہ جانا مستحب نہیں ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عورتوں کے عید گاہ جانے کی توجیہہ امام طحاوی نے یہ بیان فرمائی ہے کہ چونکہ اس وقت اسلام کا ابتدائی دور تھا مسلمان بہت کم تھے اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ مقصد تھا کہ اگر تمام عورتیں بھی عیدگاہ جائیں گی تو مسلمانوں کی تعداد زیادہ معلوم ہوگی جس سے کفار پر رعب پڑے گا۔ لہٰذا آجکل نہ صرف اس کی ضرورت ہے بلکہ عورتوں کی موجودگی چونکہ بہت زیادہ محرمات و مکروہات کا ذریعہ بن سکتی ہے اس لئے علماء نے عورتوں کو عید گاہ جانے سے روک دیا ہے۔
حدیث کے آخری جملہ کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی عورت کے پاس ایسی کوئی چادر اور کوئی کپڑا نہ ہو جسے اوڑھ کر وہ عید گاہ جا سکے تو اس کی ساتھ والی کو چاہیے کہ یا تو اس کے پاس کئی چادریں ہوں تو ایک چادر عاریتا اس عورت کو دے جسے وہ بعد میں واپس کر دے گی یا پھر یہ کہ اگر اس کے پاس کئی نہیں بلکہ ایک ہی چادر ہے تو اپنی چادر کا ایک حصہ اس کو اڑھا دے اور دونوں ایک جگہ بیٹھ جائیں۔

یہ حدیث شیئر کریں