نماز خوف کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مختص ایک ہی طریقہ
راوی:
وَعَنْ جَابِرٍ اَنَّ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم کَانَ یُصَلِّی بِالنَّاسِ صَلَاۃَ الظُّھْرِ فِی الْخَوْفِ بِبَطْنِ نَخْلٍ فَصَلّٰی بِطَائِفَۃٍ رَکْعَتَیْنِ ثُمَّ سَلَّمَ ثُمَّ جَآءَ طَائِفَۃُ اُخْرٰی فَصَلَّی بِھِمْ رَکْعَتَیْنِ ثُمَّ سَلَّمَ۔ (رواہ فی شرح السنۃ)
" حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقام " بطن نخل" میں خوف کے وقت ظہر کی نماز پڑھی چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو اس طرح) نماز پڑھائی کہ ایک جماعت کو دو رکعتیں پڑھا کر سلام پھیر دیا۔ پھر جب دوسری جماعت آئی تو اسے بھی دو رکعتیں نماز پڑھا کر سلام پھیر دیا۔" (شرح السنۃ)
تشریح
" بطن نخل" مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک جگہ کا نام ہے حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے مسلک کے مطابق یہ حدیث اس پر محمول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قصر کی نماز پڑھی۔ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار رکعتوں کے بجائے دو رکعت نماز ادا فرمائی اس کے بعد دو رکعت نماز نفل پڑھی۔ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے ہاں نفل نماز پڑھنے والے کے پیچھے فرض نماز پڑھنے والا اقتدا کر سکتا ہے۔
حنفی مسلک کے مطابق اس حدیث کی تشریح بظاہر ایک سخت مسئلہ ہے کیونکہ اگر اسے سفر پر محمول کیا جائے تو نفل نماز پڑھنے والے کے پیچھے فرض نماز پڑھنے والے کی اقتدا لازم آتی ہے اور حنفیہ کے ہاں یہ درست نہیں ہے لہٰذا یہ سفر کی نماز تو قرار نہیں دی جا سکتی۔ اب اگر اس حدیث کا محمول حضر کی نماز قرار دی جائے تو پھر ہر دو رکعت پر سلام پھیرنا لازم آتا ہے جو نماز کے منافی ہے لہٰذا اس کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں کہ یہ کہا جائے کہ نماز تو حالت حضر ہی میں پڑھی گئی تھی البتہ ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرنا یہ صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیات میں سے تھا جو دوسروں کے لئے جائز نہیں ہے چنانچہ لوگوں نے اپنی بقیہ دو دو رکعتیں آپ کے سلام پھیرنے کے بعد بطور خود پوری کیں اس طرح ان کی بھی چار رکعتیں ہو گئیں۔
اس سلسلے میں حضرت امام طحاوی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے جو تحقیق پیش کی ہے وہ بہت مناسب معلوم ہوتی ہے انہوں نے فرمایا ہے کہ یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب کہ ایک فرض نماز دو مرتبہ پڑھی جا سکتی تھی۔