دشمن کے مد مقابل ہونے کی صورت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز اور جماعت
راوی:
عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عُمَرَ عَنْ اَبِےْہِث قَالَ غَزَوْتُ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ قِبَلَ نَجْدٍ فَوَازَےْنَا الْعَدُوَّ فَصَافَفْْنَا لَھُمْ فَقَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم ےُصَلِّیْ لنَاَ فَقَامَتْ طَائِفَۃٌ مَعَہُ وَاَقْبَلَتْ طَآئِفَۃٌ عَلَی الْعَدُوِّ وَرَکَعَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم بِمَنْ مَعَہُ وَسَجَدَ سَجْدَتَےْنِ ثُمَّ انْصَرَفُوْا مَکَانَ الطَّآئِفَۃِ الَّتِیْ لَمْ تُصَلِّ فَجَآءُ ْوا فَرَکَعَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم بِھِمْ رَکْعَۃً وَّسََجَدَ سَجْدَتَےْنِ ثُمَّ سَلَّمَ فَقَامَ کُلُّ وَاحِدٍ مِّنْھُمْ فَرَکَعَ لِنَفْسِہٖ رَکْعَۃً وَّسَجَدَ سَجْدَتَےْنِ وَرَوٰی نَافِعٌ نَّحْوَہُ وَزَادَ فَاِنْ کَانَ خَوْفٌ ھُوَ اَشَدُّ مِنْ ذَالِکَ صَلَّوْا رِجَالًا قِےَامًا عَلٰی اَقْدَامِھِمْ اَوْ رُکْبَانًا مُّسْتَقْبِلِی الْقِبْلَۃِ اَوْ غَےْرَ مُسْتَقْبِلِےْھَا قَالَ نَافِعٌ لَّا اُرَی ابْنَ عُمَرَ ذَکَرَ ذَالِکَ اِلَّاعَنْ رَّسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم۔ (صحیح البخاری)
" حضرت سالم ابن عبداللہ ابن عمر اپنے والد (حضرت عبداللہ ابن عمر ) سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا کہ ہم (ایک مرتبہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ نجد کی طرف جہاد کے لئے گئے (جب) ہم دشمنوں کے سامنے ہوئے تو ہم نے ان (سے مقابل) ہونے کے لئے صفیں باندھ لیں، رسول اللہ ہمیں نماز پڑھانے کے لئے کھڑے ہوئے تو ایک جماعت آپ کے ساتھ (نماز کے لئے) کھڑی ہوئی اور دوسری جماعت دشمن کے مد مقابل کھڑی رہی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کے ساتھ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ( نماز کی جماعت میں ) شریک تھے ایک رکوع کیا اور دو سجدے کئے پھر وہ لوگ (جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ نماز میں تھے) ان لوگوں کی جگہ چلے گئے جنہوں نے نماز نہیں پڑھی تھی ( اور دشمن کے مد مقابل کھڑے تھے) جن لوگوں نے نماز نہیں پڑھی تھی وہ آئے (اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ نماز میں شریک ہوگئے) چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کے ہمراہ ایک رکوع اور دو سجدے کئے پھر سلام ۔ اور یہ لوگ کھڑے ہوگئے اور ہر ایک نے اپنا اپنا ایک رکوع اور دو سجدے کر لئے " ۔ نافع نے بھی اسی طرح روایت بیان کی ہے۔ مگر انہوں نے اتنا اور زیادہ بیان کیا ہے کہ " اگر (عین جنگ کی حالت ہو اور ) خوف اس سے بھی زیادہ ہو (کہ مذکورہ بالا طریقہ سے نماز پڑھنا ممکن نہ ہو ) تو لوگ پیادہ کھڑے کھڑے یا (پیادہ نہ ہو سکیں تو) سواری پر اگر (ممکن ہو تو) قبلے کی طرف یا (اور اگر ممکن نہ ہو تو) کسی بھی طرف رخ کر کے نماز پڑھ لیں" حضرت نافع فرماتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی نقل کئے ہوں گے۔" (صحیح البخاری )
تشریح
" نجد" بلند زمین کو کہتے ہیں یہاں نجد سے مراد نجد حجاز ہے۔ نجد یمن مراد نہیں ہے۔
یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ تعدد جماعت یعنی کئی کئی مرتبہ جماعت کرنا مکروہ ہے خصوصاً جب کہ تمام نمازی حاضر ہوں۔ ایسے ہی یہ حدیث اس بات کی بھی دلیل ہے کہ فرض نماز نفل نماز پڑھنے والے کے پیچھے جائز نہیں ہوتی ورنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں جماعتوں کو الگ الگ دو دو مرتبہ نماز پڑھاتے نیز جماعت کے واجب ہونے کی بھی یہ حدیث دلیل ہے کہ ایسی حالت میں بھی جب کہ دشمن کا لشکر مد مقابل ہو جماعت نہ چھوڑی جائے۔
حضرت ابن ہمام فرماتے ہیں کہ مذکورہ بالا طریقے سے نماز خوف کی ادائیگی اس وقت ضروری ہوتی ہے جب کہ سب لوگ ایک ہی آدمی کو امام بنانے پر مصر ہوں۔ اگر ایسی صورت حال نہ ہو تو پھر افضل یہ ہے کہ ایک امام ایک جماعت کو پوری نماز پڑھائے اور دوسرا امام دوسری جماعت کو پوری نماز پڑھائے ۔
حدیث کے الفاظ فقام کل واحد منھم ( اور یہ لوگ کھڑے ہوگئے الخ) کی تفصیل و فائدہ علماء حنفیہ میں سے بعض شارحین نے یہ بیان کیا ہے کہ یہ جماعت جو بعد میں آکر نماز میں شریک ہوئی تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سلام پھیرنے کے بعد دشمن کے مقابلے میں چلی گئی اور پہلی جماعت جو پہلی رکعت میں شریک ہوئی تھی وہاں سے اپنی جگہ یعنی نماز پڑھنے آگئی اور تنہا تنہا اپنی بقیہ نماز پوری کی اور سلام پھیر کے دشمن کے مقابلہ پر چلی گئی اس کے بعد پھر دوسری جماعت یہاں آگئی اور اس نے بھی تنہا اپنی بقیہ نماز پوری کی اور سلام پھیر کے دشمن کے مقابلہ پر چلی گئی۔
ابن ملک رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ بعض علماء سے یہی تفصیل اور طریقہ منقول ہے چنانچہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ کا بھی یہی مسلک ہے ۔ اگر یہ تفصیل حدیث میں وضاحت کے ساتھ بیان نہیں کی گئی ہے اور نہ صراحت کے ساتھ حدیث اس پر دلالت کرتی ہے ۔ لیکن حضرت ابن ہمام فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے حضرت امام ابوحنیفہ کے مسلک کا ایک جز ثابت ہوتا ہے اور وہ یہ کہ پہلی جماعت ایک رکعت پڑھ کر چلی جائے اور دوسری جماعت دوسری رکعت میں آکر امام کے ساتھ شریک ہو اور اس دوسری جماعت کی موجودگی میں امام اپنی نماز پوری کر کے سلام پھیر دے ۔ البتہ حضرت امام اعظم کا پورا مسلک اور ان کا نقل کردہ پورا طریقہ ایک دوسری روایت سے ثابت ہوتا ہے جو حضرت عبداللہ ابن عباس پر موقوف ہے حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا یہ مسلک اور ان کی روایت حضرت امام محمد نے اپنی کتاب الآثار میں نقل کی ہے۔
اس سلسلے میں اتنی بات سمجھ لینا چاہیے کہ نماز خوف کے بارہ میں حضرت امام اعظم کا جو مسلک ہے اور انہوں نے جو تفصیل بیان کی ہے وہ حدیث موقوف سے ثابت ہے اور ظاہر ہے کہ اس باب میں عقل کو کوئی دخل نہیں لہٰذا حدیث موقوف بھی حدیث مرفوع کے درجے میں ہوگی۔
اور پھر یہ کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا مسلک یہ بھی ہے کہ صورت مذکورہ میں پہلی جماعت اپنی نماز بغیر قرأت کے لاحق کی طرح پوری کرے اور دوسری جماعت قرأت کے ساتھ پوری کرے جیساکہ مسبوق اپنی نماز قرأت کے ساتھ پوری کرتے ہیں لیکن یہ صورت اس وقت کی ہے جب کہ نماز حالت سفر میں پڑھی جا رہی ہو اور امام مسافر ہو یا نماز دو رکعت والی نماز ہو اور اگر امام مقیم ہو اور نماز چار رکعتوں والی ہو تو دونوں جماعتوں میں سے ہر ایک جماعت امام کے ساتھ دو دو رکعتوں پڑھے گی۔ لیکن نماز اگر تین رکعتیں والی ہو جیسے مغرب کی تو خواہ سفر ہو یا حضرت دونوں صورتوں میں پہلی جماعت امام کے ساتھ دو رکعتیں پڑھے گی اور دوسری جماعت ایک رکعت اور ہر جماعت اپنی اپنی نماز مذکورہ بالا طریقے سے پوری کرے گی۔
حدیث کے آخری الفاظ قیا ما علی اقدامھم سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ نمازی رکوع اور سجدہ ترک کر دیں۔ یعنی مذکورہ بالا صورت میں جب کہ لوگ پیادہ کھڑے کھڑے یا سواری پر نماز پڑھیں تو رکوع اور سجدہ سر کے اشارے سے کر لیں نماز خوف کے سلسلے میں مذکورہ بالا طریقہ اگرچہ خلاف قیاس ہے کیونکہ خود حضرت امام ابوحنیفہ کے نزدیک چلنا، سوار ہونا اور لڑنا نماز کو فاسد کر دیتا ہے۔ پھر یہ کہ اس صورت میں نہ صرف یہ کہ عمل کثیر بہت ہوتا ہے بلکہ قبلے سے بھی انحراف ہوتا ہے لیکن چونکہ قرآن کریم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث صحیحہ میں نماز خوف اور اس کا طریقہ وارد ہو گیا ہے۔ اس لئے اسے مشروع رکھا گیا ہے۔