نماز خوف کا بیان
راوی:
کفار کے خوف اور دشمن کے مقابل ہونے کے وقت جو نماز پڑھی جاتی ہے اسے نماز خوف کہتے ہیں۔ خوف کی نماز کتاب و سنت سے ثابت ہے ۔ نیز اکثر علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد یہ نماز باقی اور ثابت ہے اگرچہ بعض حضرات کا قول ہے کہ نماز خوف صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک ہی کے ساتھ مخصوص تھی۔ نیز بعض حضرات مثلاً حضرت امام مالک رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک یہ نماز حالت سفر کے ساتھ مخصوص ہے۔ جب کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک یہ نماز سفر و حضر دونوں صورتوں میں جائز ہے۔
بحسب اختلاف زمانہ و مقام یہ نماز متعدد طریقوں سے روایت کی گئی ہے چنانچہ بعض حضرات نے کہا ہے کہ سولہ طریقوں سے منقول ہے۔ بعض حضرات نے اس سے زائد اور بعض نے اس سے کم کہا ہے لیکن علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ احادیث میں جتنے بھی طریقے منقول ہیں تمام کے تمام معتبر ہیں علماء کے ہاں اختلاف صرف ترجیح اور فوقیت کے بارے میں ہے کہ کسی نے کسی طریقے کو ترجیح دی ہے اور اس پر عمل کیا ہے جو صحاح ستہ میں مذکور ہے۔
علامہ شمنی نے کہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز خوف چار جگہ پڑھی ہے ۔ ذات الرقاع بطن نخل، عسفان اور ذی قرد۔ لہٰذا اس سے معلوم ہوا کہ نماز خوف تھی تو حالت سفر میں مگر فقہاء نے اس پر قیاس کرتے ہوئے اس نماز کو حضر میں بھی جائز رکھا ہے۔