رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر خطبہ ارشاد فرماتے تھے
راوی:
وَعَنْ کَعْبِ بْنِ عُجْرَۃَص اَنَّہُ دَخَلَ الْمَسْجِدَ وَعَبْدُالرَّحْمٰنِ بْنُ اُمِّ الْحَکَمِ ےَخْطُبُ قَاعِدًا فَقَالَ انْظُرُوْا اِلٰی ھٰذَا الْخَبِےْثِ ےَخْطُبُ قَاعِدًا وَقَدْقَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَاِذَا رَاَوْاتِجَارَۃً اَوْ لَھْوَانِ انْفَضُّوْا اِلَےْھَا وَتَرَکُوْکَ قَآئِمًا۔ (الجمعۃ ٦٢:١١) (صحیح مسلم)
" اور حضرت ابن عجرۃ رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے بارے میں منقول ہے کہ وہ (ایک مرتبہ جمعے کے روز) مسجد میں (اس وقت) داخل ہوئے جب کہ عبدالرحمن ابن ام الحکم (جو بنی امیہ میں سے تھا بیٹھ کر خطبہ پڑھ رہا تھا ، کعب ابن عجرہ نے کہا کہ (ذرا) اس خبیث کی طرف دیکھو بیٹھ کر خطبہ پڑھ رہا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے آیت (وَاِذَا رَاَوْا تِجَارَةً اَوْ لَهْوَ ا انْفَضُّوْ ا اِلَيْهَا وَتَرَكُوْكَ قَا ى ِمًا) 62۔ الجمعہ : 11) یعنی جب لوگ سوداگری یا کھیل دیکھتے ہیں تو اس کی طرف بھاگ جاتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھڑا چھوڑ دیتے ہیں۔" (صحیح مسلم)
تشریح
سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدس زمانے میں ایک مرتبہ مدینے میں سخت قحط پڑا، اہل مدینہ سخت پریشانی اور تکلیف میں مبتلا ہوئے، انہیں دنوں ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعے کے روز منبر پر کھڑے خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ ناگہاں ایک قافلہ تجارت کی غرض سے شام سے مدینہ میں داخل ہوا۔ صحابہ کرام جو فاقہ کشی اور بھوک سے بے حد بے حال ولاغر ہو رہے تھے خطبہ نبی کے دوران ہی اس قافلے کو دیکھنے کے لئے اضطرارًا مسجد سے باہر چلے گئے کچھ صحابہ جن کی تعداد بارہ تھی بدستور مسجد میں بیٹھے خطبہ سنتے رہے جب ہی آیت بالا نازل ہوئی حضرت کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ اللہ جل شانہ، کے اس قول سے یہ بات بالکل واضح ہوتی ہے کہ خطبہ کھڑے ہو کر پڑھا جاتا ہے اور صحیح احادیث سے بھی یہی ثابت ہے۔ اس کے باوجود جو یہ آدمی بیٹھ کر خطبہ پڑھ رہا ہے تو اس کی خبث باطن میں کیا شک ہے۔
بہرحال آیت بالا کے الفاظ " آپ کو کھڑا چھوڑ جاتے ہیں" سے یہ بات واضح ہوئی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر خطبہ ارشاد فرماتے تھے، چنانچہ امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک کھڑے ہو کر خطبہ پڑھنا خطبے کی شرط ہے جب کہ حنفیہ کے نزدیک سنت ہے۔
جمعے اور خطبے کے اوقات : جمعے کی صحیح ادائیگی کے شرائط میں سے ایک شرط وقت ہے چنانچہ جمعہ کی نماز وقت کے بعد بخلاف دوسری نمازوں کے صحیح نہیں ہوتی۔ جمعہ کا وقت وقت ظہر ہے چنانچہ جمعہ کی نماز وقت سے پہلے جائز نہیں ہے مگر حضرت امام احمد ابن حنبل کے نزدیک درست ہے اسی طرح عصر کا وقت شروع ہو جانے کے بعد بھی نماز جمعہ جائز نہیں ہے مگر حضرت امام مالک کے نزدیک جائز ہے۔
حدیث بالا اس بات پر دلالت کر رہی ہے کہ حرام یا مکروہ چیزوں کے ارتکاب کرنے والے پر سختی کرنا یا اس کے ساتھ غصہ کا معاملہ کرنا جائز ہے اس لئے کہ اس چیز کے خلاف عمل کرنا جس کی مداومت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو چکی ہے خبث باطن کی نشانی ہے۔