مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ جمعہ کا بیان ۔ حدیث 1384

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبہ پڑھنے کا طریقہ

راوی:

عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ کَانَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم یَخْطُبُ خُطْبَتَیْنِ کَانَ یَجْلِسُ اِذَا صَعِدَ الْمِنْبَرَ حَتّٰی یَفْرَغُ اَرَاہُ الْمُؤَذِّنَ ثُمَّ یَقُوْمُ فَیَخْطِبُ ثُمَّ یَجْلِسُ وَلَا یَتَکَلَّمُ ثُمَّ یَقُوْمُ یَخْطُبُ۔ (رواہ ابوداؤد)

" حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو خطبے اس طرح پڑھا کرتے تھے ( کہ) جب آپ منبر پر چڑھتے تو (پہلے) بیٹھتے یہاں تک کہ فارغ ہوتا، راوی فرماتے ہیں کہ میرا گمان یہ ہے کہ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا تھا کہ " یہاں تک کہ مؤذن فارغ ہوتا " پھر آپ اٹھتے اور (پہلا خطبہ ارشاد فرماتے، پھر تھوڑی سی دیر ) بیٹھتے (لیکن اس بیٹھنے کے درمیان) کوئی کلام نہ کرتے ، پھر کھڑے ہوتے اور (دوسرا ) خطبہ ارشاد فرماتے ۔" (سنن ابوداؤد)

تشریح
حدیث کے الفاظ اذا صعد المنبر کے پیش نظر علماء نے کہا ہے کہ منبر پر کھڑے ہو کر خطبہ پڑھنا مستحب ہے۔ دونوں خطبوں کے درمیان بیٹھنے کی مقدار کے بارہ میں علامہ ابن حجر رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کا ارشاد ہے کہ اولی یہ ہے کہ سورت اخلاص پڑھنے کے بقدر بیٹھنا چاہیے " کوئی کلام نہ کرتے " کا مطلب یہ ہے کہ دونوں خطبوں کے درمیان بیٹھنے کے عرصے میں نہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم دعا کرتے تھے اور نہ کچھ پڑھتے تھے۔
مسئلہ یہ ہے کہ دوسرے خطبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آل و اصحاب وازواج مطہرات خصوصا خلفاء راشدین اور حضرت حمزہ و عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے لئے دعا کرنا مستحب ہے، بادشاہ وقت کے لئے بھی دعا کرنا جائز ہے۔ لیکن " شرح منیہ" میں لکھا ہے کہ بادشاہوں کی ایسی تعریف کرنا جو غلط ہو اور ان کے ایسے اوصاف بیان کرنا جن سے وہ متصف نہ ہوں اشد مکروہ (یعنی مکروہ تحریمی) ہے کیونکہ اس طرح عبادت کے ساتھ گناہ یعنی جھوٹ کو ملانا لازم آتا ہے۔ اس مسئلہ کی شدت اس سے بخوبی واضح ہوتی ہے کہ ہمارے بعض ائمہ نے تو یہاں تک کہا ہے کہ ہمارے زمانے کے بادشاہوں کو عاد کہنا حدود کفر کے قریب ہو جاتا ہے۔
حدیث میں جو یہ بیان کیا گیا ہے کہ " رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں خطبوں کے درمیان کلام نہیں کر تے تھے" تو اس کے بارے میں حضرت شیٰخ عبدالحق محدث دہلوی نے تو وہی تشریح کی ہے جو اوپر بیان کی گئی ہے ۔ لیکن ملا علی قاری نے شرح طیبی سے نقل کیا ہے کہ دونوں خطبوں کے درمیان بیٹھتے تو کتاب اللہ کی آیتیں پڑھا کرتے تھے چنانچہ بعض حضرات نے کہا ہے کہ اس عرصے میں سورت اخلاص پڑھنا مستحب ہے۔ بہر حال ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حدیث کے اس جملے کی فائدہ کے وقت حضرت شیخ عبدالحق رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے سامنے یہ روایت نہیں ہوگی۔ وا اللہ اعلم۔

یہ حدیث شیئر کریں