خطبہ ارشاد فرماتے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کیفیت
راوی:
وَعَنْ جَابِرٍص قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَا خَطَبَ اِحْمَرَّتْ عَےْنَاہُ وَعَلَا صَوْتُہُ وَاشْتَدَّ غَضَبُہُ حَتّٰی کَاَنَّہُ مُنْذِرُ جَےْشٍ ےَقُوْلُ صَبَّحَکُمْ وَمَسّٰکُمْ وَےَقُوْلُ بُعِثْتُ اَنَا وَالسَّاعَۃُ کَھَاتَےْنِ وَےَقْرِنُ بَےْنَ اِصْبَعَیْہِ السَّبَابَۃِ وَالْوُسْطٰی۔ (صحیح مسلم)
" اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب (جمعے کا یا کوئی ) خطبہ ارشاد فرماتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں سرخ ہو جاتیں اور آواز بلند ہو جاتی اور غصہ تیز ہو جاتا تھا یہاں تک کہ (ایسا محسوس ہوتا) گویا آپ لوگوں کو (دشمن کے لشکر سے) ڈرا رہے ہوں اور فرما رہے ہوں کہ صبح و شام میں تم پر (دشمن کا لشکر ڈاکہ ڈالنے والا ہے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبے میں ارشاد فرمایا کرتے تھے کہ " مجھے اور قیامت کو اس طرح ساتھ ساتھ بھیجا گیا ہے " یہ کہہ کر آپ اپنی دو انگلیوں یعنی شہادت کی انگلی اور بیچ کی انگلی کو ملاتے ۔" (صحیح مسلم)
تشریح
انوار جلال کبریائی کی تجلی اور امت مرحومہ کی تقصیرات کے مشاہدے کی وجہ سے خطبے کے وقت آپ کی آنکھیں سرخ ہو جاتی تھیں اسی طرح اپنی امت کے غم و فکر کی وجہ سے یا یہ کہ سا معین کے کانوں تک اپنے الفاظ پہنچانے کے لئے آپ کی آوازبلند ہوتی تھیں تاکہ لوگوں کے قلوب متاثر ہوں ۔ نیز اس وقت آپ کا غصہ امت کی اعتقادی و عملی بے راہ روی کے پیش نظر ہو جاتا تھا۔
بہر حال حاصل یہ ہے کہ جس طرح اپنی قوم اور اپنے لشکر کی غفلت شعاریوں اور کو تاہیوں کو دیکھ کر اس کو دشمن کے خطرناک ارادوں اور منصوبوں سے ڈرانے والا اپنی آواز کو بلند کرتا ہے ۔ اس کی آنکھیں سرخ ہو جاتی ہیں اور غصہ تیز ہو جاتا ہے ۔ اسی طرح اپنی امت کی غفلت شعاریوں کی پیش نظر خطبے کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ کیفیت و حالت ہوتی تھی۔
حدیث کی آخری جملے کا مطلب یہ ہے کہ " جس طرح بیچ کی انگلی شہادت کی انگلی سے تھوڑی سی بڑھی ہوئی ہے اسی طرح میں بھی قیامت سے بس تھوڑا ہی پہلے دنیا میں آیا ہوں، قیامت کے آنے کا وقت میری بعثت کے وقت سے متصل ہی ہے میرے بعد جلد ہی قیامت آنے والی ہے۔