رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جمعے کی پہلی اذان نہیں ہوتی تھی
راوی:
وَعَنِ السَّآئِبِ بْنِ ےَزِےْدَ صقَالَ کَانَ النِّدَاءُ ےَوْمَ الْجُمُعَۃِ اَوَّلُہُ اِذَا جَلَسَ الْاِمَامُ عَلَی الْمِنْبَرِ عَلٰی عَھْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم وَاَبِیْ بَکْرٍ وَّعُمَرَ فَلَمَّا کَانَ عُثْمَانُ وَکَثُرَ النَّاسُ زَادَ النِّدَآءَ الثَّالِثَ عَلَی الزَّوْرَآئِ۔(صحیح البخاری)
" اور حضرت سائب ابن یزید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے زمانے میں جمعے کی پہلی اذان وہ ہوتی تھی جو امام کے منبر پر بیٹھنے کے بعد دی جاتی تھی مگر جب حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ خلیفہ ہوئے اور لوگوں کی کثرت ہوگئی تو تیسری اذان کا اضافہ کیا گیا جو وزراء میں دی جاتی تھی۔" (صحیح البخاری )
تشریح
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں جمعے کی اذان کے سلسلے میں معمول یہ تھا کہ جب آپ نماز جمعہ کے لئے تشریف لاتے اور منبر پر بیٹھتے تو اذان کہی جاتی تھی ۔ جمعہ کی پہلی اذان جو نماز کا وقت شروع ہو جانے کے بعد کہی جاتی ہے اس وقت مقرر نہیں تھی۔ زمانہء رسالت کے بعد حضرت ابوبکر صدیق و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے زمانہ خلافت میں بھی یہی معمول رہا۔ مگر جب حضرت عثمان غنی خلیفہ ہوئے تو انہوں نے یہ دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک زمانہ میں مسلمان تعداد میں کم تھے اور یہ کہ مسجد کے قریب ہی سکونت پذیر تھے بلکہ اکثر مسلمان تو ہمہ وقت بارگاہ رسالت ہی میں حاضر رہتے تھے اور اب نہ صرف یہ کہ مسلمانوں کی تعداد بھی بہت بڑھ گئی ہے بلکہ اکثر مسلمان مسجد سے دور دراز علاقوں میں سکونت پذیر ہیں اور اپنے اپنے کاروبار میں مشغول رہتے ہیں تو انہوں نے یہ مناسب جانا کہ جب نماز کا وقت ہو جائے تو اذان کہی جائے تاکہ جو لوگ دور دراز علاقوں میں رہتے ہیں وہ بھی خطبے میں حاضر ہوجائیں۔ اسی طرح اسی وقت سے اذان اول کہی جانے لگی۔ لہٰذا " تیسری اذان " سے مراد یہی پہلی اذان ہے کہ حدیث میں اس کو " تیسری اذان" سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ کیونکہ اگرچہ یہ اذان وقوع کے اعتبار سے اول ہے کہ سب سے پہلے کہی جاتی ہے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں چونکہ مقرر شدہ دو اذانوں (یعنی ایک تو وہ اذان جو خطبے کے وقت کہی جاتی ہے اور دوسری تکبیر) کے بعد یہ اذان مقرر ہوئی ہے اس لئے اسے " تیسری اذان " کہا جاتا ہے۔
بہر حال وہ اذان جو نماز جمعہ کے لئے سب سے پہلی کہی جاتی ہے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مقرر کی ہے اور وہ بھی سنت ہے اسے بدعت نہیں کہا جائے گا کیونکہ حضرات خلفاء راشدین کا فعل اور ان کا مقرر کردہ طریقہ بھی سنت ہی میں شمار ہوتا ہے۔
اب تو غالباً کسی بھی جگہ طریقہ یہ رائج نہیں ہے مگر پہلے بعض مقامات پر یہ معمول تھا کہ سنتیں پڑھنے کے وقت مزید ایک اذان کہی جاتی تھی جو نہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مقرر تھی اور نہ صحابہ اور تابعین کے دور میں مقرر ہوئی اور نہ اکثر مسلم ممالک و بلاد میں اس وقت یہ اذان کہی جاتی تھی نہ معلوم کس آدمی نے یہ بدعت جاری کی تھی۔
علماء نے لکھا ہے کہ نماز جمعہ کے لئے پہلی اذان ہو جانے کے بعد خرید و فروخت (یا کوئی بھی دنیاوی مشغولیت) حرام ہو جاتی ہے اور نماز جمعہ میں جلدی پہنچنے کے لئے اس کی تیاریوں اور اہتمام میں مشغول ہو جانا واجب ہو جاتا ہے۔