عذاب قبر کے ثبوت کا بیان
راوی:
وَعَنْ جَابِرِ عَنِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ اِذَا اُدْخِلَ الْمَیِّتُ الْقَبْرَ مُثِّلَتْ لَہُ الشَّمْسُ عِنْدَ غُرُوْبَھا فَیَجْلِسُ یَمْسَحُ عَیْنَیْہِ وَیَقُوْلُ دَعُوْنِیْ، اَصَلِّیْ۔ (رواہ ابن ماجہ)
" اور حضرت جابر رضی الله تعالیٰ عنه راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب مردہ (مومن) کو قبر کے اندر دفن کر دیا جاتا ہے تو اس کے سامنے غروب آفتاب کا وقت پیش کیا جاتا ہے، چنانچہ وہ مردہ ہاتھوں سے آنکھوں کو ملتا ہوا اٹھ بیٹھتا ہے اور کہتا ہے مجھے چھوڑ دو تاکہ میں نماز پڑھ لوں۔" (سنن ابن ماجہ)
فائدہ :
با عمل مومن مردہ جس وقت قبر میں دفن کیا جاتا ہے تو وہ جس طرح دنیا میں ایمان و اسلام پر قائم رہا اور فرائض اسلام کی ادائیگی سے کبھی غافل نہ رہا، اسی طرح قبر میں بھی اسے سب سے پہلے نماز ہی یاد آتی ہے چنانچہ جب منکر و نکیر اس کے پاس قبر میں حاضر ہوتے ہیں تو وہ سوال و جواب سے پہلے نماز ادا کرنے کے لئے کہتا ہے کہ پہلے نماز پڑھ لوں اس کے بعد تمہیں جو کچھ کہنا سننا ہو کہو سنو یا سوال وجواب کے بعد وہ یہ الفاظ کہتا ہے اور وہ یہ خیال کرتا ہے کہ میں اپنے گھر والوں کے درمیان بیٹھا ہوں، اس کے شعور و احساس میں سب سے پہلے نماز ہی آتی ہے۔ یہ حالت اس کی رعایت حال پر دلالت کرتی ہے کہ گویا وہ ہنوز دنیا میں ہی ہے اور سو کر ابھی اٹھا ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ جو بندہ دنیا میں پکا نمازی ہوگا، اور جس کی نماز کبھی قضا نہیں ہوتی ہوگی، قبر میں بھی حسب عادت اسے پہلے نماز ہی یاد آئے گی۔
دفن کے بعد مردہ کے سامنے غروب آفتاب کا وقت پیش کرنا اس کی حالت مسافر اور تنہائی کی مناسبت کی وجہ سے ہے چنانچہ جب کوئی مسافر کسی شہر میں شام کو پہنچتا ہے تو وہ حیرانی و پریشانی کے عالم میں چاروں طرف دیکھتا ہے کہ کہاں جاؤں اور کیا کروں؟ جیسا کہ شام غریباں مشہور ہے۔
تو زلف راکشا دی و تاریک شد جہاں
اکنوں فتاد شام غریباں کجا روند
اور
نماز شام غریباں چوگریہ آغازم
بہائے ہائے غریبانہ گر بہ پردازم