عذاب قبر کے ثبوت کا بیان
راوی:
(١٣)عَنْ اَسْمَاءَ بِنْتِ اَبِیْ بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَتْ قَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم خَطِےْبًا فَذَکَرَ فِتْنَۃَ الْقَبْرِ الَّتِیْ ےُفْتَنُ فِےْھَا الْمَرْءُ فَلَمَّا ذَکَرَ ذَلِکَ ضَجَّ الْمُسْلِمُوْنَ ضَجَّۃً ۔(صحیح البخاری)ھٰکَذَا وَزَادَ النَّسَآئِیُّ حَالَتْ بَیْنِیْ وَبَیْنَ اَنْ اَفْھُمْ کَلَامَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم فَلَمَّا سَکَنَتْ ضَجَّتُھُمْ قُلْتُ لِرَجُلِ قَرِیْبِ مِّنِّیْ اَیْ بَارَکَ اﷲُ فِیْکَ مَاذَا قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم فِیْۤ اٰخِرِ قَوْلِہٖ قَالَ قَالَ قُدْاُوْحِیَ اِلَیَّ اِنَّکُمْ تُفْتَنُوْنَ فِی الْقُبُوْرِ قَرِیْبًا مِّنْ فِتْنَۃِ الدَّجَّال۔
" اور حضرت اسماء بنت ابی بکر راوی ہیں کہ ایک دن سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ کے لئے کھڑے ہوئے اور قبر کے فتنہ کا ذکر فرمایا جس میں انسانوں کو مبتلا کیا جاتا ہے چنانچہ اس ذکر سے مسلمان (خوف زدہ ہو کر روتے) اور چلاتے رہے، یہ روایت صحیح البخاری کی ہے اور سنن نسائی نے اتنا اور زیادہ بیان کیا ہے کہ (خوف و دہشت کی وجہ سے ) مسلمانوں کے چیخنے اور چلانے کے سبب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ کو نہ سن سکی، جب یہ چیخنا چلانا بند ہوا تو میں نے اپنے قریب بیٹھے ہوئے ایک آدمی سے پوچها، الله تمهیں برکت عطا فرمائے (یعنی تمهارے علم و حلم میں زیادتی هو، آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا؟) اس آدمی نے کها آپ صلی الله علیه وسلم نے فرمایا مجھ پر یہ وحی آئی ہے کہ تم قبروں کے اندر فتنہ میں ڈالے جاؤ گے یعنی تم کو آزمایا جائے گا اور یہ آزمائش و امتحان فتنہ دجال کے قریب قریب ہوگا۔"
فائدہ :
مطلب یہ ہے کہ جس طرح فتنہ دجال اپنی تباہی و بربادی اور نقصان و خسران کی بناء پر سخت ہلاکت آفریں اور تباہ کن ہو گا، اسی طرح فتنہ قبر بھی ہول و دہشت اور اپنی شدت و سختی کی بناپر بہت زیادہ خوفناک ہوگا۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنی چاہئے کہ وہ ایسے سخت و نازک وقت میں اپنی رحمت کے دروازے کھول دے اور اس امتحان و آزمائش میں ثابت قدم رکھے۔