مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ جمعہ کا بیان ۔ حدیث 1332

جمعہ کی فضیلت اور ساعت قبولیت

راوی:

عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ خَرَجْتُ اِلَی الطُّوْرِ فَلِقِیَتْ کَعْبَ الْاَحْبَاِر فَجَلَسْتُ مَعَہ، فَحَدَّثَنِی عَنِ التُّورَاۃِ وَحَدَّثَتْہُ عَنْ رَسُوْلِ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَکَانَ فِیْمَا حَدَّثَتْہ، اَنْ قُلْتَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَیْرُ یَوْمٍ طَلَعَتْ عَلَیْہِ الشَّمْسُ یَوْمُ الْجُمُعَۃِ فِیْہِ خُلِقَ آدَمُ وَفیہ احبط وفیہ تیب علیہ وفیہ مات وفیہ تقوم الساعۃ ومامن دابۃ الا وھی مصیخۃ یوم الجمعۃ من حین تصبح حتی تطلع الشمس شفقا من لساعۃ الا الجن ولانس وفیہ ساعۃ لا یصاد فھا عبد مسلم وھو یصلی یسال اﷲ شیا الا اعطاہ ایاہ قال کعب ذالک فی کل سنۃ یوم فقلت بل فی کل جمعۃ فقرا کعب التوراۃ فقال صدق رسول اﷲ علیہ قال ابو ھر یرۃ لقیت عبداﷲ بن سلام فحدثتہ بمجلسی مع کعب الاحبارو ما حدثتہ فی یوم الجمعۃ فقلت لہ قال کعب ذلک فے کل سنۃ یوم قال عبداﷲ بن سلام ھی اخر ساعۃ فی یوم الجمعۃ قال ابو ھر یرۃ فقلت وکیف تکون اخر ساعۃ فی یوم الجمعۃ وقد قال رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلملا یصادفھا عبد مسلم وھو یصلی فیھا فقال عبداﷲ بن سلام الم یقل رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلممن جلس مجلسا ینتظر الصلوٰۃ فھو فی صلاۃ حتی یصلی قال ابو ھر یرۃ فقلت بلی قال فھو ذالک (رواہ موطا امام مالک و ابوداؤد و الترمذی و النسائی وروی احمد بن حنبل الی قولہ صدق کعب)

" حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ (ایک روز) میں کوہ طور کی طرف گیا ، اور وہاں کعب احبار سے ملاقات کی میں ان کے پاس بیٹھ گیا انہوں نے میرے سامنے تو رات کی کچھ باتیں کیں اور میں نے ان کے سامنے سر تاج دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں بیان کیں میں نے ان کے سامنے جو احادیث بیان کیں ان میں سے ایک حدیث یہ بھی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان دنوں میں جن میں آفتاب طلوع ہوتا ہے سب سے بہتر دن جمعے کا ہے، جمعے کے دن حضرت آدم علیہ السلام پیدا کئے گئے۔ اسی روز وہ جنت سے (زمین پر) اتارے گئے، اسی دن (یعنی جس جمعہ کو جنت سے اتارے گئے) اسی جمعہ کو آخری گھڑی میں یا یہ کہ کسی دوسرے جمعے کے دن ان کی توبہ قبول کی گئی، اسی دن ان کی وفات ہوئی اور جمعہ ہی کے دن قیامت قائم ہوگی اور ایسا کوئی چوپایہ نہیں ہے جو جمعے کے دن طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک قیامت قائم ہونے کا منتظر نہ رہا ہو (یعنی چو پاؤں کو بھی یہ معلوم ہے کہ قیامت جمعے کے روز آئے گی) اس لئے وہ ہر جمعے کو دن بھر اس خوف میں مبتلا رہتے ہیں کہ کہیں آج ہی قیامت قائم نہ ہو جائے، علاوہ جنات اور انسانوں کے (یعنی جن وانس کو اس انتظار سے غافل رکھا گیا ہے تاکہ اس ہو لناکی سے انسانی زندگی کا شیرازہ منتشر نہ ہو جائے) اور جمعے کے دن ایک ایسی ساعت آتی ہے کہ جسے کوئی بندہ مسلمان کہ وہ (حکماً یا حقیقتاً) نماز پڑھتا ہوا ہو۔ (یعنی نماز کا انتظار کرتا ہوا ہو یا دعا مانگتا ہوا ہو) اسے پالے اور اللہ تعالیٰ سے کسی چیز کا سوال کرے تو اسے وہ چیز ضروردی جاتی ہے (یعنی وہ اس وقت جو دعا مانگتا ہے قبول ہوتی ہے) کعب احبار نے (یہ سن کر ) کہا کہ یہ دن ( جو ساعت قبولیت کو اپنے دامن میں چھپائے ہوئے ہوتا ہے) سال میں ایک مرتبہ آتا ہے۔ میں نے کہا کہ نہیں!یہ دن تو ہر ہفتے میں ایک مرتبہ آتا ہے ۔ کعب نے (اس بات کی تصدیق کے لئے ) تورات پڑھی اور (اس کے بعد) کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ کہا ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ (اس کے بعد پھر) میں حضرت عبداللہ بن سلام سے ملا اور ان سے کعب سے اپنی ملاقات کا تذکرہ کیا اور جمعے کے بارے میں کعب سے میں نے جو حدیث بیان کی تھی وہ بھی بتائی پھر میں نے عبداللہ ابن سلام سے یہ بھی کہا کہ کعب کہتے تھے کہ یہ دن سال میں ایک مرتبہ آتا ہے۔ حضرت عبداللہ ابن سلام نے فرمایا کہ کعب نے غلط کہا۔ پھر میں نے کہا کہ لیکن کعب نے بعد میں تورات پڑھی اور کہا کہ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کہنا ٹھیک ہی ہے کہ) یہ ساعت ہر جمعہ کے روز آتی ہے۔ عبداللہ ابن سلام نے فرمایا کہ کعب نے یہ سچ کہا۔ اور پھر کہنے لگے کہ میں جانتا ہوں کہ وہ کونسی ساعت ہے؟ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے کہا کہ پھر مجھ کو بتلائیے اور بخل سے کام نہ لیجئے۔ حضرت عبداللہ ابن سلام نے فرمایا کہ وہ جمعہ کے دن کی آخری گھڑی میں ہے۔ میں نے کہا کہ وہ ساعت جمعہ کے دن کی آخری گھڑی کیونکر ہو سکتی ہے جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہے کہ جو بندہ مومن اس ساعت کو پائے اور وہ اس میں نماز پڑھتا ہوا ہو؟ اور آپ کہہ رہے ہیں کہ وہ ساعت جمعہ کے دن کی آخری گھڑی ہے اس وقت تو نماز نہیں پڑھی جاتی کیونکہ مکروہ ہے؟ حضرت عبداللہ ابن سلام نے فرمایا (یہ تو صحیح ہے لیکن) کہا یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نہیں ہے؟ کہ جو آدمی نماز کی انتظار میں اپنی جگہ بیٹھا رہے تو وہ حکماً) نماز ہی کے حکم میں ہے یہاں تک کہ وہ حقیقتاً نماز پڑھے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ۔ کہ میں نے (یہ سن کر کہا کہ ہاں ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے ۔ حضرت عبداللہ بن سلام نے فرمایا۔ بس نماز سے مراد نماز کا انتظار کرنا ہے۔ (اور ان کے آخری حصے میں نماز کے انتظار میں بیٹھنا ممنوع نہیں ہے اس وقت اگر کوئی دعا مانگے تو وہ قبول ہوگی) مالک، سنن ابوداؤد، ترمذی ، نسائی اور امام احمد نے بھی یہ روایت صدق کعب تک نقل کی ہے۔"

تشریح
حدیث کے الفاظ حین تصبح حتی طلع الشمس کا مطلب یہ ہے کہ قیامت چونکہ جمعے کے روز طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک کے درمیانی عرصہ میں ہی قائم ہوگی اس لئے چوپائے ہر جمعے کے روز اس عرصہ میں قیامت کے قائم ہونے کے منتظر رہتے ہیں۔ لہٰذا اس پورے وقت میں جب حیوان قیامت کا خیال رکھتے ہیں اور اس سے خوفزدہ رہتے ہیں۔ تو انسانوں کو بطریق اولیٰ یہ چاہیے کہ وہ جمعے کے روز دن بھر اللہ کی عبادت اور اس کے ذکر میں مشغول رہیں اور اس چیز سے جو پیش آنے والی ہے (یعنی قیامت سے ) ڈرتے رہیںَ
یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اعجاز شان کی غمازی کر رہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امی ہونے کے باوجود اس عظیم الشان چیز کی خبر دی جو یہود میں توراۃ کے ایک بڑے عالم سے بھی پوشیدہ تھی حالانکہ توراۃ میں اس کا ذکر موجود تھا۔ گویا توراۃ کا عالم توراۃ میں ذکر کی گئی چیز سے بے خبر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو امی تھے اس سے پوری طرح باخبر درحقیقت یہ بڑا زبردست معجزہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بظاہر تو امی تھے مگر اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سینے میں علم و معرفت کا بحر بیکراں موجزن کر رکھتا تھا۔
کعب احبار یہودیوں میں ایک بڑے پائے کے عالم اور بہت دانشمند مانے جاتے تھے انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ تو پایا ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر نہیں ہوئے تھے بعد میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کے زمانے میں اسلام کی نعمت سے مشرف ہوئے ۔ حضرت عبداللہ ابن سلام بھی یہودیوں کے بڑے عالم تھے یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک زمانے ہی میں اسلام لا کر صحابیت کے شرف عظیم سے مشرف ہوگئے تھے رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔

یہ حدیث شیئر کریں