جمعہ کی فضیلت سے یہود و نصاری کا اعراض
راوی:
عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم نَحْنُ الْاٰخِرُوْنَ السَّابِقُوْنَ ےَوْمَ الْقِےٰمَۃِ بَےْدَ اَنَّھُمْ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِنَا وَاُوْتِےْنٰہُ مِنْ بَعْدِھِمْ ثُمَّ ھٰذَا ےَوْمُھُمُ الَّذِیْ فُرِضَ عَلَےْہِمْ ےَعْنِیْ ےَوْمَ الْجُمُعَۃِ فَاخْتَلَفُوْا فِےْہِ فَھَدَانَا اللّٰہُ لَہُ وَالنَّاسُ لَنَا فِےْہِ تَبَعٌ الْےَھُوْدُ غَدًا وَّالنَّصَارٰی بَعْدَ غَدٍ مُّتَّفَقٌ عَلَےْہِ وَفِی رِوَاےَۃٍ لِّمُسْلِمٍ قَالَ نَحْنُ الْاٰخِرُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ ےَوْ مَ الْقِےٰمَۃِ وَنَحْنُ اَوَّلُ مَنْ ےَّدْخُلُ الْجَنَّۃَ بَےْدَ اَنَّھُمْ وَذَکَرَ نَحْوَہُ اِلٰی اٰخِرِہٖ وَفِیْ اُخْرٰی لَہُ عَنْہُ وَعَنْ حُذَےْفَۃَ قَالَا قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم فِیْ اٰخِرِ الْحَدِےْثِ نَحْنُ الْاٰخِرُوْنَ مِنْ اَھْلِ الدُّّنْےَا وَالْاَوَّلُوْنَ ےَوْ مَ الْقِےٰمَۃِ الْمَقْضِیُّ لَھُمْ قَبْلَ الْخَلَآئِقِ۔
" حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ ہم دنیا میں بعد میں آئے ہیں اور قیامت کے دن شرف و مرتبے میں سب سے آگے ہوں گے علاوہ ازیں اہل کتاب (یعنی یہود و نصاری) کو اللہ کی طرف سے ہم سے پہلے کتاب دی گئی ہے اور ہمیں بعد میں کتاب ملی ہے پھر یہ دن یعنی جمعے کا دن ان (اہل کتاب) پر فرض کیا گیا تھا لیکن انہوں نے اس میں اختلاف کیا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس دن (یعنی جمعہ) کے بارے میں ہماری ہدایت فرمائی بایں طور کہ ہم نے اللہ کے حکم کی فرمانبرداری کرتے ہوئے اس دن کو اللہ کی عبادت کے لئے اختیار کیا۔ اور لوگ یعنی یہود و نصاری نہ صرف شرف و فضیلت بلکہ دن کے اعتبار سے بھی ہمارے تابع ہیں ، یہود نے کل (یعنی جمعہ کے بعد کے دن سینچر) کو اختیار کیا اور نصاری نے پرسوں (یعنی سنیچر کے بعد کا دن اتوار) اختیار کیا۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم ) اور صحیح مسلم ہی کی ایک روایت میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ و حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یوں منقول ہے کہ دونوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث کے آخر میں فرمایا ۔ (دنیا میں آنے کے اعتبار سے ) ہم سب سے پیچھے ہیں اور قیامت کے دن سب سے آگے ہوں گے کہ ساری مخلوقت سے پہلے ہمارے لئے (حساب کا اور جنت میں داخل ہونے کا ) حکم کیا جائے گا۔"
تشریح
حدیث کے الفاظ " ہمیں بعد میں کتاب ملی ہے" کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ گذشتہ امتوں کے پاس اللہ تعالیٰ کی کتاب پہلے نازل ہوئی ہے اور پھر سب سے بعد میں ہماری امت کو قرآن کریم سے نوازا گیا ہے مگر درحقیقت یہی چیز ہماری امت کے لئے تمام امتوں کے مقابلے میں شرف و فضیلت کی دلیل ہے کیونکہ اصولی بات ہے کہ جو کتاب بعد میں آتی ہے وہ پہلی کتاب کو منسوخ قرار دے دیتی ہے اور ظاہر ہے کہ جو کتاب پہلی کتاب کو منسوخ قرار دے گی وہ اپنی عظمت و فضیلت کے اعتبار سے تمام کتابوں پر حاوی ہوگی۔ اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول نحن الاخرون بھی امت محمدیہ کی فضیلت و عظمت کے بیان کے لئے ہے۔
ارشاد فاختلفوا فیہ کی وضاحت و فائدے میں شارحین حدیث کا اختلاف ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے یہود و نصاری پر جمعہ کے روز کو فرض کرنے سے کیا مراد ہے؟ اور یہ کہ اہل کتاب نے اس میں کیا اختلاف کیا؟
چنانچہ بعض علماء نے کہا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس طرح مسلمانوں پر جمعے کی نماز فرض کی ہے بعینہ اسی طرح اہل کتاب پر بھی جمعہ کے روز عبادت کرنا فرض قرار دیا تھا اور انہیں یہ حکم دیا تھا کہ وہ اسی روز عبادت الٰہی کے لئے آپس میں جمع ہوا کریں جیسا کہ حدیث کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے مگر انہوں نے اپنی عادت کے مطابق اس معاملے میں بھی اللہ کے حکم سے اعراض کیا اور اپنی سرکشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا جمعے کو فرض کرنے سے مراد یہ ہے کہ ان کو اللہ تعالیٰ نے اپنے علم میں تمہارے لئے ایک ایسا دن فرض قرار دیا ہے جس میں تم اپنے دنیوی امور سے فارغ ہو کر اور تمام کام کاج چھوڑ کر اللہ کی عبادت اور ذکر میں مشغول رہو لہٰذا تم اپنے اجتہاد اور فکری قوت سے کام لیتے ہوئے اس دن کو متعین کر لو کہ وہ کونسا دن ہے؟ گویا اس طرح اللہ تعالیٰ کی جانب سے یہ اہل کتاب کے اجتہاد و فکر کا امتحان تھا کہ آیا یہ حق اور صحیح بات دریافت کر لینے اور اس پر مطلع ہوجانے کی صلاحیت رکھتے ہیں یا نہیں؟ چنانچہ یہود نے تو سنیچر کے دن کو متعین کیا اور کہا کہ یہی دن عبادت الٰہی میں اجتماعیت کے ساتھ مشغول ہونے کا دن ہے اور اسی دن کی سب سے زیادہ فضیلت ہے کیونکہ اسی دن اللہ تعالیٰ تمام مخلوقات کے پیدا کرنے سے فارغ ہوا تھا۔ لہٰذا ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اس دن دنیا کے کاروبار سے فراغت حاصل کر کے عبادت میں مشغول رہیں۔
نصاری نے اتوار کا دن مقرر کیا انہوں نے اس دن کو بایں طور تمام دنوں سے زیادہ افضل و برکت جانا کہ یہی دن ابتدائے آفرینش کا ہے۔ انہوں نے سوچا کہ مبداء کمالات و انعامات ہے کہ جس میں اللہ تعالیٰ جل شانہ مخلوق پر اپنے فیض اور اپنی نعمتوں کے ساتھ متوجہ ہوا۔ لہٰذا اس مقصد کے لئے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت و پر ستش بہت زیادہ کی جائے اور بندے دنیا کی مصروفیتوں سے منہ موڑ کر اپنے پیدا کرنے والے اور اپنے پالنہار کی بندگی میں مصروف رہیں یہی دن سب سے زیادہ مناسب اور بہتر ہو سکتا ہے۔۔
لیکن یہود و نصاری دونوں اپنے اجتہاد اور اپنی رائے میں ناکام رہے اور ان کی طبیعت اور ان کے مزاج میں چونکہ تمردوسر کشی کا مادہ زیادہ تھا۔ سعادت و بھلائی کے نور سے ان کے قلوب پوری طرح مستفید نہ تھے اس لئے وہ اصل مقصد اور اصل دن جو اللہ کے علم میں تھا اس کو تو پہچان نہ سکے بلکہ اپنی اپنی دلیلوں کا سہارا لے کر دوسرے دنوں کو اختیار کر بیٹھے۔
بر خلاف اس کے کہ اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت سے نوازا اور اپنے فضل و کرم سے اصل دن یعنی جمعہ کی معرفت عطا فرمائی چنانچہ جب اللہ جل شانہ نے اس آیت (يٰ اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْ ا اِذَا نُوْدِيَ لِلصَّلٰوةِ مِنْ يَّوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا اِلٰى ذِكْرِ اللّٰهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ Ḍ ) 62۔ الجمعہ : 9) کے ذریعے مسلمانوں کو حکم دیا کہ جمعہ کو اللہ کی عبادت کی جائے تو اس کے ساتھ انہیں اس حکم کی بجا آوری کی توفیق بھی عطا فرمائی اور اس امت کو اس مرحلے پر بھی تمردوسر کشی اور خود ساختہ دلیلوں کے ذریعے گمراہ نہیں کیا چنانچہ مسلمانوں نے اللہ کے اس حکم کے آگے گردن اطاعت جھکا دی اور ایک سچی فرما نبردار امت ہونے کے ناطے جمعہ ہی کے دن کو اللہ کی عبادت و بندگی کے لئے اختیار کر لیا۔
" لوگ ہمارے تابع ہیں" کا مطلب یہ ہے کہ جمعہ کا روز چونکہ حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کا دن ہونے کی وجہ سے نسل انسانی کے لئے مبداء اور انسانی زندگی کا سب سے پہلا دن ہے اس لئے اس دن عبادت کرنے والے عبادت کے اعتبار سے متبوع اور اس کے بعد کے دو دن یعنی سنیچر و اتوار کو عبادت کرنے والے تابع ہوئے۔
اسی بناء پر یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے ۔ کہ شرعا اور اصولا جمعے کا دن ہی ہفتہ کا پہلا دن ہے ۔ لیکن تعجب ہے کہ عرف عام اس کے برخلاف ہے۔